
گہرے، سرسبز جنگل میں، جہاں درختوں
کی شاخوں پر جگنو چمکتے، نرم ہوا پتوں سے سرگوشیاں کرتی، اور ننھی ندیاں چاندنی میں چمکتی تھیں، وہاں ایک قدیم اسکول تھا.جنگل سکول۔۔
("شانت ونا ودیالیہ”)
….۔ یہ جنگل کے تمام
جانوروں کے لیے سیکھنے کا سب سے معزز ادارہ تھا، جہاں نونہال پرندے، شرارتی بندر، ذہین خرگوش، اور حتیٰ کہ شرمیلے ہرن بھی پڑھنے آتے۔….
اسکول کے پرنسپل، بُدھیسور اُلو،
ایک اُدھیڑ عمر اور نہایت سمجھدار اُلو تھے۔ ان کی سنجیدہ آنکھیں علم کی روشنی سے جگمگاتی تھیں اور وہ ہمیشہ جنگل کے بچوں کے لیے بہترین اساتذہ کی تلاش میں رہتے۔ ان کا ماننا تھا کہ سیکھنے کی کوئی حد نہیں، اور نہ ہی کوئی مخصوص شکل یا ذات اس کا تعین کر سکتی ہے۔۔۔۔۔۔
ایک دن، انہوں نے ایک حیرت انگیز اعلان کیا:۔۔۔۔
"ہم نے کہانیوں اور جنگل کی تاریخ کے لیے ایک نیا استاد منتخب کیا ہے۔ جنگل کے سب سے منفرد، سب سے ذہین، سب سے حیرت انگیز شخصیت۔۔۔ پروفیسر سرسری ناگ!”
یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔
"کیا؟ ایک سانپ استاد؟” بندر چمپو نے حیرانی سے درخت سے جھولتے ہوئے کہا۔۔۔۔
"سانپ تو صرف رینگ سکتے ہیں! وہ کیسے پڑھا سکتے ہیں؟” طوطے مینا نے چونچ مارتے ہوئے کہا۔۔۔۔
"اور کہانیاں؟ سانپ تو بس سرسراہٹ کرتے ہیں!” ہرن کی بچی نازو نے حیرانی سے کہا۔
لیکن جب پروفیسر سرسری اسکول کے دروازے پر نمودار ہوئے، تو سب دم بخود رہ گئے۔
ان کا چمکدار سنہری اور سبز دھاری دار جسم، مخملی سیاہ ٹوپی، اور سنہری نقوش والی چھوٹی سی چھڑی ان کی شان میں اضافہ کر رہی تھی۔ ان کی سبز آنکھیں ذہانت سے چمک رہی تھیں، اور ان کے لبوں پر ایک دلکش مسکراہٹ تھی۔۔۔۔۔
"پیارے بچو!” سرسری نے نرم لیکن گونج دار آواز میں کہا، "میں تمہیں کہانیوں کے ذریعے سانپوں کی دنیا سے روشناس کراؤں گا!”۔۔۔۔
سب بچے حیرت اور جوش سے بھر گئے۔ بدھیسور اُلو خاموشی سے مسکرائے، جیسے جانتے ہوں کہ ایک انوکھا سبق سب کے سامنے آنے والا ہے۔
سرسری نے اپنی سنہری چھڑی ہوا میں لہراتے ہوئے ایک کہانی کا آغاز کیا:
"سانپوں کی دنیا تمہاری دنیا سے بہت مختلف ہے۔ ہم درختوں پر، جھیلوں میں، ریت کے نیچے، حتیٰ کہ زمین کے اندر بھی رہتے ہیں۔ ہمیں چلنے کے لیے پاؤں کی ضرورت نہیں ہوتی، ہم اپنی لچکدار جلد اور مضبوط جسم کے ذریعے کسی بھی سطح پر سرک سکتے ہیں!”۔۔۔۔
"لیکن آپ کے ہاتھ نہیں ہیں! آپ چیزیں کیسے پکڑتے ہیں؟” ہاتھی کے بچے گولو نے پوچھا۔
سرسری مسکرائے، "ہمیں ہاتھوں کی ضرورت نہیں! ہماری طاقت ہماری گرفت میں ہے۔ کچھ سانپ اپنے جسم سے شکار کو جکڑ لیتے ہیں، کچھ زہر کا استعمال کرتے ہیں، اور کچھ خاموشی سے چھپ کر شکاریوں سے بچ جاتے ہیں!”
بچوں نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا۔
"سانپ کیا کھاتے ہیں؟” چڑیا چنکی نے اپنی ننھی چونچ ہلاتے ہوئے پوچھا۔
سرسری نے اپنی زبان باہر نکال کر ایک خاص انداز میں سسکاری بھری، جیسے کسی پوشیدہ راز کو بیان کر رہے ہوں۔۔۔۔
"ہم سب سانپ ایک جیسا نہیں کھاتے! کچھ مینڈک اور کیڑے کھاتے ہیں، کچھ چوہے اور پرندے، اور کچھ مگرمچھوں تک کا شکار کر سکتے ہیں! اور سب سے دلچسپ بات، ہم کھانے کو چبانے کے بجائے پورا نگل لیتے ہیں، پھر ہفتوں کچھ نہیں کھاتے!”
بندر چمپو نے اپنی آنکھیں پھیلائیں، "یہ تو جادو جیسا ہے!”
سرسری نے سر ہلایا، "یہ ہماری دنیا کا راز ہے۔ ہر جاندار کی اپنی خاصیت ہوتی ہے، جیسے خرگوش تیزی سے بھاگتے ہیں، ہاتھی مضبوط ہوتے ہیں، اور ہم سانپ ہوشیاری کے ماہر ہوتے ہیں!”
"لیکن سر! سانپ تو بول نہیں سکتے، پھر آپ کہانیاں کیسے لکھتے ہیں؟” طوطے ٹوٹو نے حیرانی سے پوچھا۔
سرسری مسکرائے، "سانپ سسکاریاں نکال کر بات کرتے ہیں! لیکن ہماری سب سے خاص طاقت یہ ہے کہ ہم زمین کی ہلکی سی لرزش بھی محسوس کر سکتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ آس پاس کیا ہو رہا ہے، چاہے وہ نظر نہ آئے!”
"اور کہانیاں؟ آپ کیسے لکھتے ہیں؟”
سرسری نے کتاب کی جلد پر اپنی دم سے ہلکی سی لہر پیدا کی اور کہا، "کہانیاں ہماری یادداشت میں محفوظ رہتی ہیں۔ میں انہیں خوشبوؤں اور علامتوں کے ذریعے یاد رکھتا ہوں۔ جنگل میں ہر پتہ، ہر ہوائی جھونکا، ہر مٹی کا ذرہ ایک کہانی کہتا ہے!”۔۔۔
بچوں کی آنکھیں حیرت اور خوشی سے چمک اٹھیں۔۔۔۔
سرسری نے آخری سبق کے طور پر ایک سحر انگیز کہانی سنائی:
"ایک بار، ایک ننھے سانپ نے ایک زخمی چڑیا کو بچایا۔ سب نے کہا کہ سانپ اور پرندہ دوست نہیں ہو سکتے، لیکن اس ننھے سانپ نے چڑیا کی دیکھ بھال کی، اسے محفوظ رکھا، اور جب وہ اُڑنے کے قابل ہوئی، تو اسے آزاد کر دیا۔ اور یوں، وہ ہمیشہ دوست رہے!”
تالیاں گونجنے لگیں، جنگل اسکول میں پروفیسر سرسری سب کے پسندیدہ استاد بن گئے۔
اور یوں، (شانت ونا ودیالیہ ) جنگل سکول ۔۔۔کی کہانیوں میں ایک نیا سنہری باب لکھا گیا، جس میں ایک سانپ، ایک استاد، اور ایک ناقابلِ یقین دوستی کا ذکر تھا۔
بچوں کی آنکھوں میں حیرت اور خوشی کی چمک تھی۔ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک سانپ استاد بن سکتا ہے، کہانیاں سنا سکتا ہے، اور انہیں زندگی کے سبق دے سکتا ہے۔
سرسری ناگ نے اپنی چھوٹی سنہری چھڑی سے زمین پر ایک دائرہ کھینچا اور مسکرا کر کہا، "دیکھو بچو، دنیا میں ہر جاندار کی ایک الگ خوبی ہوتی ہے۔ بس ضروری یہ ہے کہ ہم اپنی طاقت کو پہچانیں اور اسے مثبت طریقے سے استعمال کریں۔”
بندر چمپو نے سر کھجایا، "ہمیں ہمیشہ یہی بتایا گیا کہ سانپ چالاک ہوتے ہیں، دھوکہ دیتے ہیں، اور بس ڈسنے کے لیے مشہور ہیں!”
سرسری نے ہلکی سسکاری بھری، "یہ ایک پرانی سوچ ہے، جیسے تمہیں لگتا تھا کہ سانپ استاد نہیں بن سکتا۔ مگر کیا میں نے تمہیں کچھ سکھایا یا نہیں؟”
بچوں نے ایک ساتھ سر ہلایا، "ہاں! آپ نے ہمیں سانپوں کی زندگی، دوستی، عقل اور کہانیوں کے بارے میں بتایا!”
پرنسپل بُدھیسور اُلو جو اب تک خاموش بیٹھے سب کچھ دیکھ رہے تھے، ہلکے سے کھنکارے اور دانائی سے بولے،
"بچو، ہمیشہ یاد رکھو! کسی کو اس کے ظاہری روپ سے مت جانچو۔ عقل، سمجھداری اور علم کسی کے بھی پاس ہو سکتا ہے۔ سچ کہتے ہیں۔۔۔ سانپ کا سر بھی کام آتا ہے!”
پورا جنگل اسکول خوشی سے گونج اٹھا، پروفیسر سرسری کی عزت پہلے سے بھی بڑھ گئی، اور سب نے سیکھا کہ سیکھنے کے دروازے سب کے لیے کھلے ہوتے ہیں ۔بس دیکھنے والی آنکھ اور سمجھنے والا دل ہونا چاہیے!
ازقلم۔۔ربیعہ سلیم مرزا
گوجرانوالہ۔۔۔