
تحریر رمشا حُسین
اپنا فائدہ سوچے بنا سب کے ساتھ اچھائی کرو کیوں کے جو لوگ پھول تقسیم کرتے ہیں
ان کے ہاتھوں میں خوشبو ضرور رہ جاتی ہے
یہ منظر حسن لُغاری ویلا کا تھا جہاں اُن کی بیگم صنم لُغاری بچوں کو ٹیوشن دینے میں مصروف تھیں پاس ہی اُن کا آٹھ سالہ بیٹا میسم غُبارے کی طرح اپنا چہرہ پُھلائے بیٹھا تھا جن کو وہ کافی دیر سے نظرانداز کررہی تھیں
امی مجھے گُڑیا چاہیے۔۔۔”میسم کو مزید اپنا آپ نظرانداز ہونا پسند نہ آیا تو خاموشی کا قفل توڑتا وہ خود ہی بول اُٹھا
لڑکے گڑیا سے نہیں کِھیلتے۔۔”صنم لُغاری مسکراہٹ دبائے بولی
"آپ جانتی ہیں میں کس گُڑیا کی بات کررہا۔۔”میسم کا اپنی ماں کی بات سن کر منہ بن گیا
"میری جان یہاں آؤ۔”بچوں کو چُھٹی دیتی وہ پوری طرح سے میسم کی طرف متوجہ ہوئی
"دیکھو میسم آپ کے ماشاءاللّٰه تین بھائی اور دو چچی زاد ہیں آپ اُن کے ساتھ کیوں نہیں کِھیلتے؟”الگ سے بہن کیوں چاہیے؟”صنم لغاری اُس کے پاس خود ہی آکر بولی
"وہ سارے مجھ سے بڑے ہیں مجھے الگ سے بس اپنی چھوٹی شہزادی چاہیے جس کے ساتھ بس میں کھیلوں کوئی اور نہیں۔۔”میسم کا انداز حتمی تھا
"پھر آپ اللّٰه میاں سے دعا کریں کہ اِس بار وہ آپ کو بہن دے جو آپ کی گُڑیا ہو اور ہمیشہ آپ کے پاس رہے۔۔”صنم لغاری پیار سے اُس کے بال سنوار کر بولی تو آٹھ سالہ میسم کی آنکھوں میں چمک در آئی
"اِس بار آپ بے بی گرل دے گی نہ؟”میسم اِس بار اشتیاق سے اُن کو دیکھ کر بولا جن کے حمل کا ساتواں مہینہ چل رہا تھا
اگر خُدا نے چاہا تو۔۔”صنم لغاری نے ٹھنڈی سانس خارج کی اب وہ اُس کو کیا بتاتی کہ رب نے اُنہیں خیر سے اِس بار بھی بیٹے کی نعمت سے نواز رہا تھا
"اکیلے کیا گفت وشند ہورہی ہے؟”وہ ابھی تک گھر کے لان میں بیٹھے تھے جب وہاں سونیا لُغاری آتی اُن کو دیکھ کر شرارت سے گویا ہوئیں
"کیا بتاؤ بھابھی آپ کو؟”آپ کو تو پتا ہے اِن موصوف کو بہن چاہیے۔”صنم لغارہ نے بتایا تو وہ مسکرائی
"اور میری بیٹیوں کو بھائی۔۔”سونیا لغاری کرسی کھینچ کر بیٹھتی بتانے لگی
"آپ نے الٹراساؤنڈ کروایا تھا؟”میسم کو کِھیلنے کے لیے بھیجتی وہ اُن سے درفایت کرنے لگی جس پر اُنہوں نے اپنا سر نفی میں ہلایا
"مُحسن نے منع کیا ہوا ہے۔۔”سونیا لُغاری اپنے شوہر کا نام لیتی بتانے لگیں
"ہونہہ۔۔”جواباً صنم لُغاری ہنکارہ بھرتی رہ گئ
"حسن لُغاری اور محسن لُغاری آپس میں دو بھائی تھے بہن اُن کی کوئی تھی نہیں۔۔”جب کہ وہ دونوں ایک ڈیفنس میں رہتے تھے اُن کے گھر بس چند قدموں کی دوری پر تھے
"حسن لُغاری کی شادی اپنی کزن صنم لُغاری سے ہوئی تھی جن سے اُن کے چار بیٹے تھے۔۔”ایک کا نام ابراہیم دوسرے کا یوسف "تیسرے کا شہزاد اور چوتھا بیٹا میسم تھا جس کو بہن نہ ہونے کا غم تب سے ستانے لگا تھا جب سے اُس کے دوست کی بہن اسکول آنے لگی تھی۔”اپنے دوستوں اور کلاس فیلوز کی بہنوں کو دیکھ کر اُس کا بھی دل چاہنے لگا تھا کہ اُس کی بھی کوئی ایک بہن ہوتی جس کا وہ خیال کرتا جو اُس کو بھیا بولتی۔۔”بس اب آگے دیکھنا تھا کہ اُس کی یہ معصوم خواہش پوری ہونی تھی یا نہیں
"دوسری طرف مُحسن لُغاری جن کے ہاں بیٹے کی پیدائش نہیں ہوئی تھی اُن کی دو بیٹیاں تھی سُمعیہ اور سوہا جبکہ سونیا بیگم پھر سے ماں بننے والی ہوئی تو سب کو بیٹے کی خواہش ہوئی تھی۔”اُن کا پانچواں مہینہ شروع ہوچکا تھا پر اُس کے باوجود انہوں نے یہ جاننے کی کوشش نہ کی کہ اِس بار بھی بیٹی ہوگی یا بیٹا ہوگا
"جس وقت کا سب سے زیادہ سے انتظار میسم کو تھا وہ وقت آخر آہی گیا تھا۔۔”صنم لُغاری نے ایک خوبصورت بیٹے کو جنم دیا تھا جس پر ہر جگہ خوشیوں کا سماں تھا لیکن میسم کا رو رو کر بُرا حال ہوگیا تھا وہ بضد ہوگیا تھا کہ اُس کو بھائی نہیں بہن چاہیے۔۔”اُس کا اِس بار اِس قدر شدید ردعمل دیکھ کر ہر کوئی پریشان ہوگیا تھا پہلے پہل سب کو یہی لگتا تھا کہ یہ اُس کا بچپنا تھا پر جس طرح اُس نے اپنی حالت خراب کردی تھی رو رو کر ایسے میں اُس کو سنبھالنا سب کے لیے مشکل ہورہا تھا کیونکہ وہ کسی کی کوئی بھی بات سُننے کو تیار نہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"میسم بیٹا ضد چھوڑدو اور اپنی امی سے کیوں اِتنا ناراض ہو؟”صنم لُغاری میسم کو دیکھ کر بولی۔۔”ایک ہفتہ ہوگیا تھا میسم ہر ایک سے روٹھا ہوا تھا اُس کو ایسے دیکھ کر صنم لُغاری اپنے نومولود بچے کے بچائے میسم کے آگے پیچھے گھوم رہی تھی جو نہ اسکول جانے پر تیار تھا اور نہ سہی سے کھانا کھاتا تھا۔۔۔”باہر کھیلنا بھی اُس نے بند کردیا تھا۔۔”اُس کے ایسے کرنے پر سب کو فکر لاحق ہوئی تھی کہ وہ کہیں بیمار نہ پڑجائے
"آپ جھوٹ بولی تھی۔۔۔”میری کبھی کوئی گُڑیا نہیں ہوگی۔۔۔”میسم بھرائی آواز میں بولا جس کو سن کر صنم لُغاری کا دل تڑپ اُٹھا اپنے سب بچوں میں اُن کو میسم سے زیادہ پیارا تھا کیونکہ میسم اُن کے بچوں کے نسبت کافی حساس بچہ تھا وہ ہر بات دل پر لے لیتا تھا
"سمعیہ اور سوہا بھی تو آپ کی بہنوں جیسی ہیں نہ۔۔”صنم لُغاری نے اُس کو سمجھانا چاہا
وہ بڑی ہیں مجھے چھوٹی سی پیاری سی گُڑیا چاہیے جس کا بہت سارا میں خیال رکھوں۔۔”اپنے ساتھ کِھلاؤں اسکول لیکر جاؤں اور پونیاں بناؤں۔۔”اپنے ہاتھوں سے کھانا بھی کِھلانا چاہتا ہوں۔۔”میسم کی بات پر وہ ہلکا سا مسکرائی
"ابھی تو میرا میسم خود چھوٹا ہے وہ کسی اور کا خیال کیسے رکھ سکتا ہے۔۔”صنم لُغاری نے کہنے کے ساتھ اُس کا ماتھا چوما
مجھے نہیں پتا مجھے بس اپنی بہن چاہیے۔۔”میسم کا انداز اٹل تھا جس پر صنم لغاری نے اپنا ماتھا مسلا میسم آجکل اُن کو ٹف ٹائیم دے رہا تھا
یار دل چھوٹا نہ کر میری بہن بھی تو تیری بہن ہوئی نہ میسم کا دوست آہل اُس کو تسلی دے کر بولا
"میں کیا پھر اُس کو اپنے گھر لے جاسکتا ہوں؟”وہ میرے ساتھ رہ سکتی ہے؟”میسم نے آس بھری نظروں سے اُس کو دیکھ کر پوچھنے لگا
"اُس کے لیے ممی پاپا نہیں مانے گے نہ۔۔”آہل کو افسوس ہوا
"پھر وہ میری بہن کیسے ہوئی؟”میسم نے سرجھٹکا اُس کا خراب موڈ مزید خراب ہوگیا تھا
کیا سوچا جارہا ہے؟”حسن لُغاری نے صنم لُغاری کو سوچو میں گم دیکھا تو استفسار ہوئے
"میں سوچ رہی ہوں کیوں نہ ہم بچہ ایڈاپٹ کریں۔”صنم بیگم پرسوچ لہجے میں بولتی اُن کو حیران کرگئ؟
"آپ کو اندازہ ہے آپ نے کیا بولا ہے؟”ماشاءاللّٰه ہم پانچ بیٹوں کے والدین ہیں کسی اور بچی کی نہ تو ہمیں ضرورت ہے اور نہ گُنجائش نکلتی ہے۔”حسن لُغاری کا انداز دو ٹوک تھا
میں ہمارے لیے نہیں میسم کے بارے میں سوچ رہی ہوں اُس کو بہن کی ضرورت ہے دیکھا نہیں آپ نے کتنا چُپ چاپ سا رہنے لگا ہے وہ۔۔۔”صنم لُغاری نے وضاحت دیتے ہوئے کہا
بچہ ہے وہ آپ اُس کے ساتھ بچی نہ بنے۔۔”آہستہ آہستہ وہ نارمل ہوجائے گا۔۔”حسن لُغاری نے سنجیدگی سے کہا
"ایک بار سوچے تو اِس میں قباحت تو کوئی نہیں ہے کیا آپ کو بیٹی کی خواہش نہیں؟”صنم لُغاری نے اُنہیں منانے کی بھرپور کوشش کی
"بیٹی کی خواہش کرنے سے کیا ہوگا؟”وہ ہمارا خون ہماری اولاد نہیں ہوگی اِس لیے ابھی تو آپ نے یہ بات کہی دوبارہ مت کہیے گا۔۔”حسن لُغاری نے دو ٹوک لہجے میں کہا
"پرورش تو ہمارے ہا
"میرا نہیں خیال کہ مزید ہمیں اِس بارے میں بات کرنی چاہیے۔۔”صنم لُغاری کچھ کہنے والی تھی جب وہ اُن کی بات درمیان میں کاٹ کر بولے جس پر پھر وہ کچھ اور نہ کہہ پائی کیونکہ اُن کا چھوٹو رِیان رونا شروع ہوگیا تھا
"کچھ وقت بعد”
مبارک ہو رحمت ہوئی ہے۔۔”نرس نے مسکراکر آکر بتایا تو محسن لُغاری کے چہرے پر کچھ ناگواری در آئی اُنہوں نے گہری سانس بھر کر نرس کی گود میں موجود خوبصورت بچی کو دیکھا جو آنکھیں موندیں ہوئیں تھی
"ماشاءاللّٰه بہت مبارک ہو بھائی صاحب۔”صنم لُغاری نے اطمینان بھرا سانس خارج کرتے ہوئے کہا۔۔”ڈیلیوری کے دوران سونیا لغاری کی طبیعت بگڑ گئ تھی جس وجہ سے ہر کوئی دعاگو تھا اب خوشی کی خبر سن کر سب کے تاثرات ڈھیلے ہوئے تھے
"خیر مبارک بھابھی۔۔”بچی کو گود میں لیتے محسن لُغاری نے لیے دیئے انداز میں جواب دیا
"امی کیا یہ گُڑیا آئی ہے۔۔”حسن لُغاری کے ساتھ ہسپتال آتا میسم جگمگاتے چہرے کے ساتھ پوچھنے لگا
"ہاں میری جان۔۔”صنم بیگم نے ہنس کر بتایا تو میسم خوشی سے اُچھل پڑا اُس کی خوشی قابلِ دید تھی
"چچا مجھے دیکھائے نہ۔۔”میسم بھاگ کر محسن لُغاری کی ٹانگوں سے لپٹ پڑا جس پر وہ ہلکا سا جُھکے
"واؤ یہ تو سب سے پیاری اور کیوٹ بھی ہے۔۔”چچا یہ میری گُڑیا یوگی نہ؟”میں ہر وقت اِس کے ساتھ کِھیل سکتا ہوں نہ؟”میسم نے بچی کو دیکھا تو پرجوش لہجے میں پوچھنے لگا ساتھ ہی اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اُس کا چہرہ چھو کر دیکھنے لگا
"اُففففف کتنی سوفٹ ہے۔۔”میسم کی حالت خوشی میں پاگل ہونے کے در پہ تھی
"ضرور کھیلنا پر اُسے پہلے تھوڑا بڑا تو ہونے دو۔۔”حسن لُغاری نے اُس کے بال بگاڑے
تو کیا ابھی یہ بھی ریان کی طرح ہر وقت سوتی رہے گی؟”میسم نے منہ بنایا جس پر سب کی ہنسی چھوٹ گئ وہ لگ جو اِتنا پیار رہا تھا
"ہاں تو میسم سارے بچے پہلے ایسے ہوتے ہیں آہستہ آہستہ بڑے ہوتے ہیں پھر آپ جتنا چاہے کِھیلنا کوئی منع کرنے والا نہیں ہوگا۔۔”محسن لُغاری نے پہلی بار لب کُشائی کی
اچھا ٹھیک ہے میری گُڑیا تو آگئ نہ یہی بہت ہے۔۔”خوشی سے چہک کر کہتا میسم اُس کے گال پر بوسہ دینے لگا۔۔”اُس بچی کے آنے کی اگر کسی کو سب سے زیادہ خوشی تھی تو وہ تھی میسم کو جبھی جو اُس نے وہ کام بھی کردیا جو اُس بچی کے باپ تک نے نہیں کیا تھا
مرے دل کے آنگن میں جب سے تم آئی ہو
جیسے کسی ویراں میکدے میں ساغر آئی ہو
"تم بھی تو اپنی پھول جیسی بچی کو پیار دو۔۔”حسن لُغاری نے اپنے چھوٹے بھائی کو ٹوکا
"کیوں نہیں بھیا۔۔”مُحسن لُغاری جبراً مسکراتے بچی کے ماتھے پر بوسہ دیا جو اب آنکھیں کھول کر اپنے باپ کو دیکھنے میں مصروف تھی
"یاہوووووو اِس نے آنکھیں کھولی۔۔”میسم کی خوشی دوگنا ہوئی وہ تو بچی کے واری صدقے جارہا تھا
"یہی کھڑے رہو تمہاری تصویر نکالوں۔۔”دیکھ رہے ہیں کتنا خوش ہورہا ہے ہمارا بچہ۔۔”صنم لُغاری نظروں ہی نظروں میں میسم کی نظر اُتارتی حُسن لغاری سے بولی جو مسکراتی نظروں سے میسم کا کِھلتا چہرہ دیکھ رہے تھے
"ہاں جی وہی دیکھ رہا ہوں پہلی بار اِتنا خوش ہوتا دیکھ رہا ہوں میں۔۔”حسن لُغاری نے صاف گوئی کا مُظاہرہ کیا
"سونیا لُغاری نے اپنی بیٹی کا نام "مشک "رکھا تھا اُس کی پیدائش کے بعد میسم کا سارا وقت اپنے چچا کے ہاں ہی گُزرتا تھا رات کے وقت ہی بہت مشکل سے صنم لُغاری بہلا پھسلا کر اُس کو گھر لے جاتیں جبکہ مشک کی پیدائش تک کا پورا ہفتہ وہ اُن کی طرف ہی رہا تھا ہر وقت جانے کیا وہ مشک کے پاس بیٹھا بولتا رہتا تھا اُس کو اچھا لگتا تھا مشک کے ساتھ باتیں کرنا اب اگر اُس کو کسی اور چیز کا انتظار تھا تو بس اِس کا کہ کب وہ بڑی ہوگی اور اُس کے ساتھ کھیلے گی
_____________________
"آرام سے کھاؤ کس چیز کی جلدی ہے آپ کو؟”صنم لغاری ریان کو فیڈ دینے کے بعد میسم کے پاس آتی اُس کو ٹوک کر بولی جو ایک کے بعد ایک نوالہ کھاتا ہڑبڑی کا مظاہرہ کررہا تھا
"امی مجھے مشک کے پاس جانا ہے کل اُس کو بُخار تھا نہ۔۔”جوس کا گلاس ہاتھ میں پکڑتا میسم اہم وجہ بتانے لگا
"وہ اب ٹھیک ہے میسم اور آپ نے تو پریشان کردیا ہے مشک کے بعد تو مزید آپ کی حرکات عجیب وغریب ہوگئیں ہیں۔۔”صنم لغاری کے لہجے میں تاسف تھا
"امی پھر آپ اُس کو یہاں لائے کتنا مزہ آئے گا۔۔”میسم کو بس اپنی پڑی تھی
"وہ یہاں کیسے آسکتی ہے؟”اُس کا گھر تو دوسرا ہے نہ۔۔”سونیا لغاری نے گویا اُس کی عقل پر ماتم کیا
"پر آپ تو کہتیں ہیں وہ میری ہے تو میں یہاں ہوں پھر اُس کو بھی میرے ساتھ یہاں ہونا چاہیے نہ۔۔”میسم سوچ سوچ کر بولا
"بلکل وہ آپ کی گڑیا ہے اُس سے پھر کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ یہاں رہے یا وہاں؟”رہنا تو اُس نے آپ کا ہی ہے نہ۔۔”صنم۔لغاری اُس کے بال بگاڑ کر بولی جو بڑے غور سے اُن کی بات سنتا آخر میں مسکرایا تھا
"ایسا بھی ہوتا ہے؟”میسم اپنے ننہے دماغ پر زور دینے لگا
"بلکل ایسا بھی ہوتا ہے اور مشک آپ کی کزن ہے جبکہ ریان آپ کا بھائی کبھی یہ پیار اُس پر بھی برسادیا کریں۔۔”صنم لُغاری مصنوعی گھوری سے اُس کو نواز کر بولی
"وہ میری گُڑیا ہے رِیان مجھے نہیں پسند اگر وہ نہ ہوتا تو میری بہن ہوتی۔۔”میسم کو جیسے اُن کی بات پسند نہیں آئی
"بہت بُری بات ہے میسم میں دوبارہ تمہاری زبان سے ایسی کوئی بات نہ سُنوں۔۔”حسن لغاری جو اب تک کے سارے بحث مباحث پر خاموش تھے وہ میسم کی بات سن کر سختی سے اُس کو ٹوک کر بولے جس پر میسم کا چہرہ بُجھ گیا تھا
"کیا کرتے ہیں بچہ ہے۔۔”صنم لُغاری سے میسم کی اُتری ہوئی شکل دیکھی نہیں گئ
"ہفتہ بعد نو سال کا ہوجائے گا اور باتیں دیکھو زرا چھوٹا بھائی اِس سے برداشت نہیں ہورہا۔۔”حسن لُغاری کو ضرورت سے زیادہ غُصہ آگیا تھا
"سوری۔۔”بھرائی ہوئی آواز میں کہتا میسم وہاں رُکا نہیں تھا بلکہ بھاگ کر باہر کی طرف بڑھ گیا تھا
آپ کو میسم کے مزاج کا پتا ہے اُس کے باوجود ایسے سختی سے پیش آئے۔۔”صنم لُغاری نے شکوہ کرتی نظروں سے اُن کو دیکھ کر کہا
"بیگم آپ سمجھائے پھر اپنے سپوت کو کیونکہ میرا سمجھانا تو پسند نہیں آرہا۔۔”حسن لغاری سرجھٹک کر بولے
تمہیں پتا ہے ڈیڈ نے آج مجھے ڈانٹا۔۔”محسن لُغاری کے ہاں آتا میسم مشک کے چھوٹے ہاتھوں کے ساتھ کِھیلتا افسردہ لہجے میں بتانے لگا جو اپنی آنکھوں کو بڑی بڑی کرتی اُس کو دیکھ رہی تھی پھر مسکرا پڑتی
"مسکراؤ نہیں۔۔”میسم نے خفگی سے اُس کو دیکھا
"تم آج اسکول نہیں گئے کیا؟”وہ باتوں میں مصروف تھے جب سونیا لُغاری مشک کا فیڈر تیار کرتی کمرے میں آکر میسم کو دیکھ کر پوچھنے لگی
"نہیں اور یہ مجھے دے میں پلاؤں گا اپنی گُڑیا کو دودہ۔۔”میسم جواب دیتا اُن کے ہاتھ سے فیڈر لینے لگا تو وہ مسکرائی
"آہستہ آہستہ پِلانا تم آتے ہو تو مشک سے بے فکر ہوجاتی ہوں بہنیں تو اِس کا خیال ہی نہیں کرتی کام کاج کے لیے مسئلہ ہوتا ہے ملازمہ رکھنے کی بھی اجازت نہیں۔۔”سونیا لُغاری اُس کے خوبصورت بالوں میں ہاتھ پھیر کر بولی
"پھر آپ یہ ہمیشہ کے لیے مجھے دے میں بہت خیال رکھوں گا اپنا کمرہ بھی شیئر کروں گا اور کِھلونے بھی۔۔”میسم فوراً سے اپنے مطلب کی بات پر آیا
"اگر ایسا ہے تو ریان اپنا چھوٹا بھائی ہمیں دو اور اِسے لے جاؤ۔”جانے کہاں سے اچانک محسن لغاری نے آکر میسم سے کہا تو سونیا لغاری اپنی جگہ دنگ رہ گئ جبکہ میسم کچھ زیادہ اُن کی بات سمجھ نہیں پایا
"میں سمجھا نہیں؟”دودہ پیتی مشک سے نظریں ہٹائے میسم اُن کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا
مطلب بہن چاہیے تو بھائی دو ہمیں اپنا اِس کی ہمیں ویسے بھی ضرورت نہیں۔۔”محسن لغاری نے اپنی بات کا مطلب سمجھایا
"بچے سے کیسی گفتگو کررہے ہیں آپ؟”سونیا لغاری کو افسوس ہوا اپنی معصوم بچی کی بے قدری پر
"گڑیا تو ویسے بھی میری ہے کیا فرق پڑتا ہے وہ یہاں ہو یا وہاں؟رہنا تو اُس نے میرا ہے نہ۔”میسم کو صنم لغاری کا پڑھایا ہوا پارٹ یاد آیا تو کہا جس پر محسن نے سرجھٹکا سونیا لغاری جبکہ تینوں پر نظر ڈالتی وہاں سے چلی گئ تھیں
"دن تیزی سے گُزر رہے تھے دیکھتے ہی دیکھتے مشک بارہ سال اور میسم بیس سال کا بھرپور مرد بن گیا تھا گُزرتے وقت کے ساتھ دونوں کا رشتہ گہرے سے گہرا ہوتا گیا تھا دونوں کی ایک دوسرے میں جان بستی تھی پورے خاندان کو یہ بات پتا تھی "مشک محسن میسم حسن کی لاڈلی تھی جس نے اپنی گڑیا کو پلکوں پر بِٹھا رکھا تھا دوسری طرف مشک نے گُزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے بے حد نزدیک اگر کسی کو پایا تھا تو وہ میسم کی زات تھی اپنی زندگی میں اگر وہ کسی کو سب سے زیادہ چاہتی تھی تو میسم لُغاری تھا جو اُس کی ایک پُکار کر بھاگم بھاگ چلا آتا تھا محس لغاری نے تو کبھی اُس کو وہ پیار نہیں دیا جس کی چاہ ہر بیٹی کو ہوتی ہے۔۔”اِس لیے مکمل طور پر اُن سے مایوس ہوتی مشک اپنی ساری باتیں ساری فرمائش اور لاڈ میسم سے پورے کرواتی تھی جو دل وجان سے نبھاتا تھا میسم مشک لیے کافی حساس تھا اُس کو وہ بہت عزیز تھی اپنے بھائیوں سے بھی زیادہ اُس کی آنکھوں میں آنسوؤ دیکھتا تو تڑپ جاتا تھا۔۔”مشک کی ساری ذمیداری اُس نے بچپن سے خود اُٹھائی تھی دونوں کے درمیان کوئی تکلف نہ تھا مشک کے لیے وہ اُس کا فرینڈ تھا تو میسم کے لیے وہ اُس کی گُڑیا
"گُڑیا کتاب پر دھیان دو۔۔”میسم نے مصنوعی گھوری سے نیند سے جھولتی مشک کو دیکھ کر کہا جو اوور ڈھیلی ڈھالی شرٹ اور ٹراؤزر میں ملبوس اُس کے کمرے میں اُس کے بیڈ پر بیٹھی اپنے پیپر کی تیاری کررہی تھی جو کہ میسم کا حکم تھا ورنہ رات کے دس بجے اُس کا کوئی اِرادہ نہیں تھا کہ وہ بیٹھی میتھ کا پیپر یاد کرنے کی زحمت کرتی
"فرینڈ بس نہ اب بہت پڑھ لیا مجھے سونا ہے۔۔”مشک نے معصوم شکل بنائے التجائیہ لہجے میں اُس سے کہا
"نہیں تم کافی ویک ہو میتھ میں اور میں چاہتا ہوں کل والی ٹیسٹ میں تم فرسٹ پوزیشن لو۔۔”میسم اُس کے شولڈر کٹ بالوں کو بڑی مشکل سے پونی میں قید کرتا بولا
"سب کچھ تو جان لیا ہے اب بس سونا ہے۔۔”اُس کو اپنے سامنے بیٹھائے گود میں سررکھتی مشک نے کہا تو میسم نے گہری سانس بھر کر اُس کو دیکھا جو اُس کی محبت کا ناجائز فائدہ اُٹھاتی تھی
"اچھا سوجاؤ اسکول جانے سے پہلے تھوڑا پڑھ لینا۔”میسم کو بھی وقت کا اندازہ ہوا تو اُس کے سر پہ ہاتھ پھیر کر بولا
"ہممم۔”ہنکارہ بھر کر کہتی مشک گہری نیند میں چلی گئ تھی اُس کو واقعی بہت تھکاوت محسوس ہورہی تھی۔” اُس کو پرسکون سوتا دیکھ کر میسم کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی جو سوتے ہوئے بلکل معصوم نظر آتی تھی ورنہ اُس کی جو حرکتیں تھی اُس سے تو شیطان بھی پناہ مانگتا ہوگا
"تقریباً پانچ منٹ بعد میسم نے احتیاط سے مشک کا سر تکیے پر رکھا اور خود اُٹھ کر اُس کا پھیلایا ہوا سامان سمیٹ کر اُس کے بیگ میں ڈالا اُس کے بعد کمبل اُس پر سہی کرتا کمرے کی ساری لائٹس آف کرکے وہ کمرے سے باہر نکل گیا اُس کا اِرادہ اب اسٹڈی روم میں جانے کا تھا کیونکہ اپنے کمرے میں تو وہ اب جا نہیں سکتا تھا وہاں تو کوئی اور بڑے حق کے ساتھ سویا ہوا تھا اور یہ حق دینے والا بھی وہ خود تھا
"نیہا اِس وقت کال خیریت؟”وہ جو اسٹڈی آتا ابھی پڑھنے لگا تھا سیل فون پر آتی کال ریسیو کرتا تھوڑا حیران ہوا
"کیوں کیا میں آپ کو اِس وقت کال نہیں کرسکتی؟”دوسری طرف "نیہا خفگی بھرے لہجے میں جواباً بولی
"ایسا تو میں نے بلکل بھی نہیں کہا آپ جب چاہے کال کرسکتیں ہیں۔۔”میسم نے گہری مسکراہٹ کے ساتھ کہا
"ہونہہ اب آئے نہ لائن پر۔۔”نیہا ہنسی
"کل کالج آؤں گی نہ؟”بہت مس کرتا ہوں یار تمہیں میں۔۔”میسم جذب کے عالم میں بولا
"میں نے آپ کو بہت مس کیا ہے جناب آپ تو میرے لیے میری سانسوں کے زیادہ ضروری ہیں۔۔”نیہا نے خوبصورت لہجے میں کہا
"تو۔اِتنا دور کیوں گئ؟”میسم نے شکوہ کیا
"مجبوری تھی فیملی ایونٹ تھا اور میں گھر کی بڑی بیٹی تھی۔۔”نیہا نے اپنی مجبوری بیان کی
"اچھا پھر کل کا سارا وقت ہمارا ہوگا۔۔”میسم نے باور کروایا
"جو حکم۔آپ کا یہ بتاؤ کیا کررہے ہو؟”نیہا نے پوچھا
"میں گُڑیا کو پڑھا رہا تھا اب وہ سوگئ تو میں اسٹڈی روم میں چلا آیا۔۔”میسم نے بتایا
"اِس وقت پڑھا رہے تھے؟”نیہا نے چونک کر وقت دیکھا
"ہاں۔میتھ میں ویک ہے بہت وہ۔۔”میسم نے جواب دیا
"ابھی کہاں ہے وہ؟”نیہا نے اگلا سوال کیا
"میرے کمرے میں بڑے مزے سے سو رہی ہے پڑھائی سے اُس کی جان جاتی ہے۔۔”میسم "مشک کا ذکر کرتا ہنس پڑا
"بہت کلوز ہے نہ وہ تمہارے؟”نیہا اُس کے لہجے میں جھلکتی محبت صاف محسوس کرسکتی تھی
"بہت میرے بغیر تو کھانا تک نہیں کھاتی جان ہے وہ میری پتا ہے آج کیا کہہ رہی تھی وہ؟”میسم نے بتانے کے بعد آخر میں سسپینس پھیلایا
"کیا کہہ رہی تھی؟”نیہا نے پوچھا
"کہا جب آپ کی شادی ہوگی تو آپ کی بیوی کو میں خوب تنگ کروں گی۔۔”یہ بھی کہ تب بھی یونہی آپ کے کمرے میں رہا کروں گی۔۔”میسم نے بتایا جس پر اِس بار نیہا کی بھی ہنسی چھوٹ گئ
"بڑی تیز ہے تمہاری گُڑیا۔۔”نیہا نے اپنا سر نفی میں ہلاکر اُس سے کہا
ہاں نہ۔۔”میسم ہلکا سا مسکرایا
"اچھا تو پھر کیا ہم اب اپنی بات کرسکتے ہیں؟”نیہا نے بات کا رُخ بدلنا چاہا
"ضرور کیوں نہیں۔۔”میسم کا اِتنا کہنا تھا اور پھر وہ اپنی باتیں بتانے پر آئی تو بتاتی چلی گئ جس کو میسم کافی دلجموعی کے ساتھ سن رہا تھا
"میسم اور نیہا کلاس فالو تھے اُن کی پہلی ملاقات کالج میں ہوئی تھی جہاں پہلے اُن کی دوستی ہوئی اور یہ دوستی کب محبت میں بدلتی شدت اختیار کرنے لگی دونوں میں سے کسی کو پتا نہیں چلا تھا۔۔”کم عرصے میں ہی وہ جان گئے تھے کہ ایک دوسرے کے لیے وہ لازم وملزم ہیں
"مشک تم میسم کے کمرے میں تھی رات کو؟”مشک کی صبح جب آنکھ کُھلی تو جلدی سے اپنا سامان اُٹھاتی جب وہ کمرے سے باہر نکلی تو صنم لغاری نے قدرے چونکتے ہوئے اُس سے سوال کیا
"جی چچی رات کو جانے کب آنکھ لگی پتا نہیں چلا آپ بتائے فرینڈ کہاں ہیں؟”اپنے بکھرے بال سنوارتی مشک ایک سانس میں بولی
"ڈوپٹہ سہی سے لو اب تم بڑی ہو چھوٹی بچی نہیں۔۔”اُس کا فرش پر رُلتا ڈوپٹہ دیکھ کر صنم لُغاری نے کہا
"جی لیا اب بتائے نہ فرینڈ کہاں ہے؟”مشک کی سوئی ایک بات پر اٹکی ہوئی تھی
"میں یہاں ہوں۔۔”اچانک میسم وہاں آکر بولا
"میں اب گھر جارہی ہوں مجھے جلدی لینے آنا آج ٹیسٹ ہے۔۔”انوکھا دلفریب انداز تھا اُس کا دھونس جمانے کا جیسے میسم اُس کے حکم کا غلام ہو
"کیوں نہیں ابھی تم جاکر جلدی سے فریش ہوجاؤ ناشتہ کرو میں بھی تب تک اپنے ایک دو کام نپٹاکر آپ کی طرف آتا ہوں۔۔”میسم نے مسکراکر کہا
"یو آر دا بیسٹ۔۔”ایڑھیوں کے بل اُونچی ہوتی اُس کا گال چوم کر کہتی وہ وہاں سے بھاگی تھی اُس کی تیز رفتار دیکھ کر میسم نے بے ساختہ اپنا سر نفی میں ہلایا تھا
"یہ مت کرنے دیا کرو۔۔”صنم لغاری جو خاموش کھڑی تھی میسم کو دیکھ کر بولی جس نے مشک کی حرکت کو کافی لائٹلی لیا تھا کیونکہ اُس کا یہ انداز بچپن سے مشک نے اپنایا تھا جب بھی وہ خوش ہوتی تو ایسے ہی اظہار بلاجھجھک کردیا کرتی تھی۔۔”میسم کو اچھے سے یاد تھا جب اُس نے پہلی بار ایسا کیا تھا تو وہ دو سال کی تھی اور تب دس سالہ میسم کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا اکثر وہ اُس کے گال پر موجود ڈمپل والی جگہ پر بوسہ دیتا تھا مگر جب مشک نے دیا تو وہ خوشی سے اچھل اچھل کر سب کو یہ بات بتارہا تھا جس کو سن کر سب اُس کا پاگل پن دیکھ کر ہنس رہے تھے
"کیا نہ کرنے دیا کروں؟”میسم اُن کی بات سمجھ نہیں پایا تھا
"یہی جو ابھی وہ کرکے گئ ہے۔۔”صنم لغاری کے چہرے پر ہلکی سی ناگواری کا تاثر تھا
"امی وہ میری چھوٹی سی گڑیا ہے آپ ایسا کیوں بول رہی ہیں؟”میسم سنجیدہ ہوا
"تمہاری گڑیا اب بڑی ہورہی ہے تو تھوڑا فاصلہ بناؤ ایک حد مقرر کرو دونوں جس کو دونوں میں سے کوئی بھی کراس نہ کرے۔۔”صنم لغاری کا لہجہ دو ٹوک تھا
پر کیوں؟
کیونکہ اگر اُس نے ایسا کسی اور کے سامنے کیا تو لوگ غلط اندازے لگاسکتے ہیں وہ لڑکی ذات ہے احتیاط کرنا اُس کا ضروری ہے۔۔”صنم لغاری نے بتایا
"آپ سے مجھے اِس بات کی امید نہیں تھی امی آپ جانتی ہو گڑیا میرے لیے کیا ہے اُس کے باوجود ایسا بول رہی ہے؟”آپ نے مجھے بہت مایوس کیا ہے۔۔”ٹھیرے ہوئے لہجے میں کہتا میسم وہاں پھر رُکا نہیں تھا بلکہ کمرے میں جاتے ہی اُس نے دروازہ بند کرلیا تھا پیچھے صنم لُغاری نے ٹھنڈی سانس خارج کی تھی
"دن کو وہاں سارا وقت رہتی ہو پر رات کو اپنے گھر رہا کرو وہاں لڑکوں کا ہجوم ہے۔۔”مشک گُنگناتی گھر آئی تو سوہا نے اُس کو دیکھ کر تنبیہہ لہجے میں کہا
"کیا مطلب آپی؟”مشک کے چہرے کی خوشی اُداسی میں بدل گئ تھی
"مطلب ڈیڈ کو غُصہ آیا تھا جب رات کو تمہیں یہاں نہ پایا تو۔۔۔”سوہا نے بتایا
پیار کب آتا ہے؟”مشک آہستہ سے بڑبڑائی
کیا کہا؟”زرا اُونچا بولنا؟”سوہا نے مشکوک نظروں سے اُس کو گھورا جس پر وہ ہلکا سا گڑبڑا گئ
"میرا ٹیسٹ ہے نہ آج تو فرینڈ نے اُس کی تیاری کروائی تھی تھک گئ تھی تو وہی سوگئ۔۔”مشک نے سنبھل کر وضاحت دینا ضروری سمجھا
"ہمممم اب جاؤ اور اسکول کے لیے تیار ہوجاؤ ڈیڈ سے بات کرنے کی ضرورت نہیں۔۔”سوہا نے سرتا پیر اُس کو گھور کر کہا
"جی بہتر۔۔بامشکل اپنے لہجے پر قابو پاتی وہ آہستگی سے بول کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئ
________________________
آدھے گھنٹے بعد جب میسم اُس کو لینے آیا تو روز کے برعکس وہ چپ چاپ اُس کے پیچھے بائیک پر بیٹھ گئ آج اُس کی یہ خاموشی میسم محسوس نہیں کرپایا کیونکہ وہ خود ازحد مایوس ہوگیا تھا وجہ صنم لغاری سے ہوئی بحث تھی
"اسکول واپسی پر مجھے فالودہ”قلفی اور حلوہ پوری کھانی ہے۔۔”میسم کو چپ چاپ بائیک چلاتا دیکھ کر مشک نے خود ہی اپنی چپی توڑی
"سب ایک ساتھ۔۔”میسم بائیک سلو اسپیڈ کرتا اُس کی فرمائشیں سن کر بولا
"میں نے ناشتہ نہیں کیا۔۔”مشک نے منہ بنایا
"وہ کیوں؟”آپ کو پتا ہے نہ بھوک کی کس قدر کچی ہے پھر بھی یہ لاپرواہی؟”میسم پریشان ہوا
"ٹفن رکھا ہے آپ جواب دے اسکول واپسی سب کِھلانے لے جائے گے نہ؟”مشک مطلب کی بات پر آئی
"ضرور کیوں نہیں۔۔”میسم پہلی بار مسکرایا
"پیسے تو ہیں نہ آپ کے پاس؟”مشک نے رازدرانہ انداز میں پوچھا
"کنگلا سمجھا ہوا ہے اپنے فرینڈ کو؟”میسم نے مصنوعی غُصے سے کہا
"ہاہاہاہا بلکل بھی نہیں۔۔”مشک کِھلکھلائی اُس کو ہنستا دیکھ کر بے ساختہ گردن موڑ کر میسم نے اُس کی جانب دیکھا جس کا گڑھا پوری آب وتاب سے ظاہر ہورہا تھا
"میں پہلے ڈسٹرب تھا اب آپ کو ایسے دیکھ کر مطمئن اور پرسکون ہوں۔۔”میسم نے مسکراکر کہا اور اپنا سارا دھیان بائیک پر دیا
"وہ کیوں؟”کس نے آپ کو پریشان کیا؟”نام بتائے میں نے چٹیاں سے پکڑنا ہے اُس کو۔۔”مشک فوراً جذباتی ہوئی
"بریک پر پاؤں رکھو یونہی ہوگیا تھا اور اب دیکھو تمہارا اسکول آگیا۔۔”بائیک کو روکتا میسم بولا جس پر مشک منہ بناتی اُٹھ کر اُس کے پاس کھڑی ہوئی
"کیا ہوا؟”خود پر اُس کی نظریں محسوس کرتا میسم سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھنے لگا
فرینڈ آپ بہت بہت زیادہ اچھے ہو اگر آپ نہ ہوتے تو جانے میرا کیا ہوتا؟”آنکھوں میں اُترتی نمی کو پیچھے کی جانب دھکیلتی مشک بولی
"خیریت ہے؟”کچھ چاہیے جو اِتنی بٹرنگ کری جارہی ہے؟”اپنی بھوری آنکھوں کو چھوٹا کیے میسم نے بغور اُس کا جائزہ لیا جو اسکول یونیفارم میں ملبوس انہاک سے اُس کو دیکھ رہی تھی۔۔”اُس کی نیلی آنکھوں میں چُھپی اداسی وہ بھانپ سکتا تھا
"کیا آپ کی تعریف بغیر وجہ کے نہیں کی جاسکتی؟”مشک نے منہ بنایا
"کی جاسکتی ہے پر افسوس ہوتی نہیں۔۔”میسم نے مسکراہٹ دبائے کہا
"ایسا بھی نہیں کرتی ہوں اور آپ کو مانتی بھی ہوں۔۔”آپ میرے لیے میرے بابا میرے فرینڈ میرے کیئر ٹیکر میرے لکی چارم میرے ٹیچر میرے ٹیوٹر میرے گارڈین سب کچھ ہے اور۔۔۔”ایک سانس میں اُس کو بیان کرتی مشک اچانک خاموش ہوگئ
"اور؟”اُس کا گال سہلاتا میسم نے اُس کو دیکھا جس کا چہرہ لال ہوگیا تھا اپنی اہمیت اُس کی زندگی میں جان کر وہ مغرور ہوا تھا
"اور بڑی ہوجاؤں گی میں جب تب آپ میرے شوہر بھی بن جانا۔۔”مشک نے اپنی بات مکمل کی تو پہلے پہل تو وہ خاموش سا اُس کو دیکھنے لگا جیسے بات سمجھنے کی کوشش کررہا ہو پر جیسے اُس کو بات سمجھ آئی ایسے میں اُس کی ہنسی چھوٹ گئ اُس نے اب غور کیا کہ سب کچھ اُس نے ایڈ کیا تھا مگر”بھائی”ایڈ نہیں کیا تھا
"ہنس کیوں رہے ہیں؟”مشک حیران سی اُس کو دیکھے گئ جس کا پورا چہرہ ہنسنے کے باعث سرخ ہوگیا تھا آنکھوں میں نمی تک آگئ تھی
"میں آپ کا سب کچھ ہوسکتا ہوں پر شوہر نہیں۔۔”آپ میری گڑیا ہو جس کا خیال میں ساری عمر رکھوں گا۔۔”اور دوبارہ یہ بچوں والی باتیں نہ کرنا۔۔”ہنسی کنٹرول کرتا میسم نے کہا
"وہ کیوں؟”مشک کے ماتھے پر بل نمایاں ہوئے
یہ بتانے کے لیے ابھی آپ بہت چھوٹی ہو خیر ابھی آپ اسکول جائے۔۔”میسم نے ٹالا
"آپ ہمیشہ میرے ساتھ ایسے رہے گے نہ؟”جیسے ڈیڈ مجھ سے دور رہتے ہیں ویسے آپ تو کبھی دور نہیں ہوگے نہ؟”کسی خدشے کے تحت اپنا پیارا سا ہاتھ اُس کے بازوں پر رکھتی سہمے ہوئے بچے کی طرح وہ پوچھنے لگی
یونہی نہیں کہتا میں آپ کو اپنی جان۔۔”آپ میں واقعی میری جان مقید ہے میں خود سے آپ کو کبھی دور نہیں رکھوں گا یہ میرے اختیار میں نہیں ہے آپ ہمیشہ میرے ساتھ ہوگیں۔۔”میسم مسکراکر بہت بڑے الفاظ بول گیا جس کو سنتی مشک کی آنکھوں میں جگنو چمکنے لگے تھے
"میں ہمیشہ آپ کے ساتھ رہوں گی؟”وہ جیسے ابھی تک یقین نہیں کرپائی
"جی ہمیشہ۔۔”میسم نے مسکراکر اُس کو دیکھا
"واعدہ؟”مشک نے اپنا گول مٹول خوبصورت سا ہاتھ اُس کے آگے کیا
"پکا واعدہ۔۔”اُس کی باتوں کو بچپنا سمجھتا میسم اپنا ہاتھ اُس کے ہاتھ میں دے گیا۔۔”وہ نہیں تھا جانتا اِس واعدے کی کتنی بڑی قیمتی اُس کو چُکانی تھی