ارسل بھی سنجیدہ ہو گیا
"ایسا کیاغلط کہا ہے جو تم اتنا ہایپر ہو رہی ہو ۔۔۔ ایک سال بعد واپس آیا ہوں ۔۔۔ تمہیں تو خود مجھے دیکھتے ہی  مجھ سے ہگ کرنا چاہیے تھا ۔۔۔ "
"ارسل یہ امریکہ نہیں ہے پاکستان ہے ۔۔۔۔ "
” سو واٹ بے بی پاکستان میں بھی کیا کچھ نہیں ہوتا ۔۔۔۔ اور جس فیملیز سے ہم بیلونگ رکھتے ہیں وہاں ان باتوں کو برا نہیں سمجھا جاتا ۔۔۔ "
"لیکن مجھے یہ سب پسند نہیں ” حیا نے ناگواری سے کہا
"کیا مطلب ہے حیا ” ارسل نے سنجیدہ نظروں سے اسے دیکھا
"ارسل مجھے یہ سب پسند نہیں ہے پلیز آئندہ اس قسم کی ڈیمانڈ مجھ سے مت  کرنا”حیا کی صاف گوئی پر کچھ پل تو وہ اسے دیکھتا رہا پھر مسکرانے لگا
"او کم آن حیا ۔۔۔ میں تو مزاق کر رہا تھا ۔۔۔ دیکھ رہا تھا کہ تم جواب کیا دیتی یو "بات کو وہ بدل گیا تھا حیا کی ناراضگی دیکھنے کے موڈ میں نہیں تھا ۔۔۔
"اگر یہ مزاق بھی تھا تو آئندہ ایسا مزاق بھی مت کرنا ” حیا اب بھی غصے میں تھی ۔۔۔
"او کے ۔۔جسٹ ریلکس ۔۔۔”ارسل نے ہی بات کو ختم کیا ۔۔۔
*****……

نور جہاں بیگم جازم سے ملنے کا کہہ تو چکی تھی
لیکن پریشان بھی تھی ۔۔۔ وہ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھا مجبورا نور جہاں کو ہی اسکے سامنے ہار ماننی پڑی ۔۔۔
لیکن سوچ چکی تھی کہ اس کے سامنے ڈیمانڈ بہت بڑی رکھ دے گی جو وہ ادا نا کر سکے ۔۔۔۔ آگلے روز جازم وہاں مقررہ وقت پر پہنچا تھا ۔۔

چہرہ زخمی تھا مگر کپڑے اچھے صاف ستھرے پہن کر آیا تھا شیو بھی بنی ہوئی تھی ۔۔ بالوں کی بھی کٹنگ نئ نئ لگ رہی تھی ۔۔۔ بلیک پینٹ شرٹ میں ملبوس تھا ۔۔۔ ایک نظر اسے دیکھ کر نور جہاں نے ناگواری سے چہرہ پھیرا تھا ۔۔۔۔
"کیا کہوں اس کم بخت کو ۔۔۔ ایسے تیار ہو کر آیا ہے جیسے اپنی ہم عمر حسنیہ سے ملاقات کرنی ہو ۔۔۔ ہنہ ” جازم اس بار اسکے پیروں کے پاس نہیں بیٹھا تھا بلکہ اسکے سامنے تخت پر بیٹھا تھا اسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا نور جہاں کے ماتھے پر کئ بل پڑے تھے ۔۔۔ کچھ دیر نور جہاں رخ موڑے بیٹھی رہی سمجھ نہیں پا رہی تھی  بات کیا کرے لیکن جازم بنا تامل اسے دیکھ رہا تھا مسکرارہا تھا نور جہاں کو کوفت سی محسوس ہونے لگی تھی ۔۔۔
” دیکھ ۔۔۔ میں اب یہ کام چھوڑ چکی ہوں ۔۔۔ اور میری ان چونچلوں کی عمر بھی نہیں ہے ۔۔۔ لیکن تجھے جبان دی تھی ۔۔۔ اپنی بات سے پھرتی ناہی ہے نور جہاں ۔۔۔ لیکن قیمت میں کمی ناہی کروں گی ۔۔۔ ” وہ دو ٹاک انداز سے بولی
"جانتا ہوں ۔۔۔۔ آپ صرف ایک بار کہیں ۔۔۔ میں جان بھی دے دوں گا ” جازم کے جذباتی پن پر وہ زچ ہوئی تھی
” پانچ لاکھ ایک رات کے ” نور جہاں کے چہرے پر سختی آئی تھی
"بس اتنے سے مجھے لگا جانے کیا مانگ لیں گیں  ۔۔۔ مجھے منظور ہے ” جازم مطمئن تھا ۔۔۔نور جہاں کو اسکے اطمینان پر تعجب تھا ۔۔۔
جیب سے چیک نکال کر اس نے سائن کیے تھے ۔۔۔ اور چیک نور جہاں کے ہاتھ میں تھما دیا ۔۔
ستر لاکھ کے اندر اندر جتنی چاہے رقم بھر لیجیے گا ۔۔۔ اس سے ذیادہ میرے پاس ہیں نہیں اگر ہوتے ہو وہ بھی آپ پر قربان تھے۔۔۔۔ ” جازم کو کچھ دیر حیرت سے دیکھ کر بولی
” عشق میں بڑے بڑے بادشاہوں کو خاک ملتے سنا ہے نور جہاں نے…. پر حسن اور کم عمری پر ۔۔۔ تجھ جیسا اپنے سے دوگنی عورت کے لئے یہ سب کر کے اپنی  کم عقلی کا  ثبوت دے  رہا ہے   ۔۔ ” نور جہاں کو اس پر افسوس ہو رہا تھا
"کمرے میں چلیں "جازم مزید کچھ سننا نہیں چاہتا تھا ۔۔۔ نور جہاں نے ایک تاسف بھری نظر اس پر ڈالی اور اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئ ۔۔۔ دل کا حال عجیب تھا کئ سال بعد دوبارہ سے اسی اذیت سے گزرنا تھا جس پر ایک عمر گزار کر وہ یہاں تک پہنچی تھی ۔۔۔ سوچا نہیں تھا کہ اس عمر میں بھی اپنا سودا کرنا پڑے گا ۔۔۔
کمرے کا دروازہ جازم نے بند کیا تھا چٹکنی لگائی نور جہاں کادل مٹھی میں جکڑا گیا تھا   ۔۔۔  وہ چلتے ہوئے نور جہاں کے بیڈ پر آ کر بیٹھ گیا ۔۔۔  آج نور جہاں  بلکل سادگی میں بیٹھی تھی ۔۔۔۔ پہنی بھی شلوار قمیض تھی ۔۔۔ وہ بھی بلکل سادہ سی ۔۔۔ کوئی ہار سنگھار نہیں کیا تھا چہرہ بھی میک اپ سے مبرا تھا ۔۔۔ اس لئے چہرے پر آنے والی جھریاں صاف دکھ رہیں تھیں ۔۔۔ وہ چاہتی تھی کہ جازم اسے سادگی میں دیکھے ۔۔۔ شاید اسکے چہرے پر بڑھتی عمر کے آثار میک اپ سے چھپ جاتے ہوں لیکن سادگی میں تو سب دکھتا   ہے لیکن جازم کے چہرے پر صرف پا لینے کی چمک تھی خوشی تھی ۔۔۔ کہیں بھی ناگوری نہیں تھی ۔۔۔ وہ سامنے بیٹھا  بڑی محویت سے  اسے دیکھ رہا تھا  بڑی لگاوٹ اور محبت سے ۔۔ نور جہاں پر بیزاریت چھائی تھی ۔۔۔

"بہت حسین ہیں  آپ ۔۔۔بہت ہی خوبصورت ۔۔۔۔ ” اپنی تعریف بہت مردوں سے سنی تھی نور جہاں نے لیکن سامنے بیٹھے شخص کے منہ سے جتنی بری لگ رہی تھی پہلے کبھی کسی کے منہ سے نہیں لگی تھی ۔۔۔ لیکن وہ کچھ نہیں بولی ۔۔۔ جازم نے گہری سانس لی ۔۔۔ اپنے پیروں کو جوتوں سے آذاد کیا ۔۔۔ اور پاؤں اوپر کیے بیٹھ گیا ۔۔۔
کچھ دیر اسے  ایسے ہی دیکھتا رہا ۔۔۔
"کچھ کہیں گئیں نہیں مجھ سے  ” بڑی محبت بھری مسکان لیے اس نے پوچھا تھا
"ناہی ۔۔۔ کچھ نہیں ناہی کہنا "۔۔۔٫وہ ناگوری سے بولی تھی ۔۔ جازم نے مسکرا کر کندھے اچکائے 
"آپکی مرضی ہے ۔۔۔ "
نور جہاں دو زانے بیٹھی تھی جازم بڑے بے تکلفانہ انداز سے  اسکی گود میں سر رکھے لیٹ گیا وہ یک  دم سے چونکی تھی ۔۔۔ پھر چہرے کا رخ نا گواری سے بدلہ تھا جازم نے لیٹے لیٹے اسکی جانب دیکھ  کر کہا
"آپ سے اجازت اس لئے نہیں لی کیونکہ حق رکھتا ہوں آپ پر ۔۔۔۔ بہت تھک چکا ہوں ۔۔۔ سونا چاہتا ہوں اگر زحمت نا ہو تو میرے سر پر ہاتھ پھیر دیں ” یہ کہہ کر جازم نے آنکھیں بند کر لیں تھیں ۔۔۔۔ نور جہاں اسکی فرمائش پر کچھ متذبذب سی ہوئی تھی۔۔۔۔ آنکھیں پھیلائے اسے دیکھا تھا
وہ اسکی گود میں سر رکھے آنکھیں موندے لیٹا تھا ۔۔۔ نور جہاں نے اس کا چہرہ غور سے دیکھا ۔۔۔ رنگت گوری تھی نین نقش بھی بھلے تھے دیکھنے میں خوبصورت تھا ۔۔۔ لیکن پھر خود کو جھٹکا ۔۔۔  جازم نے ایک آنکھ کھول کر نور جہاں کو دیکھا جو اسی کو ترچھی نظر سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ کچھ حیران پریشان تھی اس نے بیڈ پر دھرا نور جہاں کا  ہاتھ پکڑ کر اپنے سر پر رکھ دیا
"پلیز میں سونا چاہتا ہوں ” فرمائش وہی تھی ۔۔۔۔ کے وہ اس کا سر سہلائے ۔۔۔ مجبورا ہی سہی لیکن نور جہاں  اس کاسر سہلانے لگی تھی وہ واقع کچھ ہی دیر میں بڑی گہری نیند سو چکا تھا ۔۔۔ نور جہاں حیران تھی ۔۔۔ یہ کیسی محبت تھی ۔۔۔ کیسی فرمائش تھی ۔۔۔ لڑکا پاگل سا لگا تھا ۔۔۔ کچھ کھسکا ہوا ۔۔۔ بہرحال کچھ دیر ہاتھ پھیرنے پر وہ تھک چکی تھی مگر وہ بے خبر سو رہا تھا ۔۔۔ جیسے سچ میں کئ دنوں کی نیند پوری کرنے آیا تھا ۔۔۔ بیٹھے بیٹھے وہ تھکنے لگی تھی ۔۔۔۔ پھر بیڈ کے کراؤن سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کر لیں ۔۔۔ کچھ دیر میں آنکھ لگ بھی گئ مگر ٹھیک سے سو نہیں پائی تھی تنگ آکر سوچا کے اسے جگا دے لیکن وہ تو یوں بے خبر سو رہا تھا جیسے جگے گا ہی نہیں ۔۔۔۔۔ نور جہاں  نے اسے جگانے کے لئے ہاتھ بھی بڑھایا مگر نا جانے کیوں اسے اتنی بے خبر نیند سے جگا نہیں سکی لیکن چند گھنٹوں میں بے بس ہوگئ تھی تھک چکی تھی  اس لئے نور جہاں نے اسے ہلانے جھلانے کی کوشش کی وہ کسمسا کر  نور جہاں کا ہاتھ تھامے اپنے چہرے کے نیچے رکھ کر پھر سے بے خبر سو گیا  تھا ۔۔۔
صبح تک نور جہاں تھکن سے چور  ہو چکی تھی جب جازم کی آنکھ کھلی ۔۔۔
سامنے نور جہاں کروان سے ٹھیک لگائے سو رہی تھی ایک دلفریب سی مسکراہٹ تھی جو جازم کے چہرے پر اسے دیکھ کر آئی تھی پوری رات کے رتجگے کے تھکن کے آثار نور جہاں کے چہرے پر صاف واضع تھے ۔۔۔۔
"ابھی تو شروعات ہے نور جہاں بیگم ۔۔۔۔ میں تو اپنے سارے حقوق آپ سے لیکر رہوں گا ۔۔۔ یہ میرا حق تھا جس سے آپ نے مجھے محروم کیا تھا ۔۔۔ لیکن دیکھ لیں میں نے پوری رات جگایا ہے آپ کو اپنے لئے ۔۔۔۔۔اب تو ایسی کتنی ہی راتیں آپکو صرف میرے  لئے جاگنی ہیں۔۔۔ اتنا تنگ کروں گا کہ میرے سوا سب بھول جائیں گئیں مجبور ہو جائیں گی میرے ساتھ جانے کے لئے ۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔ لو یو سووووو مچ ۔۔۔   ” جازم اب اسکی گود سے اٹھ کر بیٹھ گیا تھا بڑے پیار سے اسے دیکھ رہا تھا  ۔۔۔ نور جہاں کی بھی آنکھ کھل گئی تھی ۔۔۔ اسے سامنے دیکھ کر اس پر جی بھر کر غصہ آیا تھا ۔۔۔ نیند سے آنکھیں کھلنے سے انکاری تھی پوری رات بیٹھ کر کاٹی تھی
"ہو گئ تمہاری نیند پوری ۔۔۔ کم بخت پاؤں سن ہو گئے ہیں  میرے ۔۔۔ بیٹھے بیٹھے کمر تختہ بن چکی ہے ۔۔۔ سارے گھوڑے گدھے بیچ کر سوئے تھے کا”  نور جہاں نے سخت لہجے سے بولا مگر جازم کے چہرے پر صرف مسکراہٹ تھی
” اب کاہے بٹر بٹر دیکھ رہے ہو ہم کو جاو یہاں سے "غصہ کسی طور کم نہیں ہو رہا تھا نور جہاں کا
” چلا جاتا ہوں بس اپنے ہاتھ کا ناشتہ کروا دیں تو احسان مند رہوں گا آپ کا بہت بھوک لگ رہی ہے ۔۔۔ اصل  میں جس دن نیند پوری کر کے اٹھوں تو بھوک کچھ ذیادہ لگتی ہے  کھائے بنا تو دو قدم۔چلا نہیں جاتا مجھ سے ” چہرے پر بلا سی معصومیت لئے اسنے بڑے پیار اور ملتجی لہجے میں منت کی تھی ۔۔۔ نور جہاں کے لئے وہ لڑکا کسی بھید کی طرح تھا۔۔۔۔ سمجھ سے بالا تر۔۔۔۔۔

” باؤلے ہو کا ۔۔۔ نور جہاں بیگم تجھے ناشتہ کروا کر بھیجے گی ۔۔۔ چل اٹھ یہاں سے اور نکلنے کی کر "
"نور جہاں بھوکا بھیج دے گی تو کیا چین آ جائے گا اسے ۔۔۔۔۔ سنا ہے  اپنے در سے کسی بھوکے اللہ کے بندے  کو کھلائے بنا بھیجا نہیں ہے نور جہاں نے  ۔۔۔۔ ؟  جازم کی بات پر وہ کچھ متحیر ضرور ہوئی تھی یہ بات وہ کیسے جانتا تھا
"تو فقیر  ناہی ہے ” دھیرے سے نظریں چرا کر بولی
” اللہ کا بندہ تو  ہوں ۔۔۔ پھر  بھوکا بھی ہوں ۔۔۔ ” نور جہاں نے کوفت سے اسے دیکھا ۔۔
"اچھا ٹھیک ہے بنا دیتی ہوں تجھے ناشتہ کم بخت شکل کیسی معصوموں کی طرح بناتا ہے  ۔۔۔ ” نور جہاں تنگ ہو کر اٹھی ۔۔۔کھڑی ہوئی تھی کمر کسی لکڑی کی مانند اکھڑی سی لگ رہی تھی ۔۔۔ پوری رات بیٹھ کر کاٹی تھی ۔۔۔ کمر پر ہاتھ رکھے وہ کچن کی جانب گئ تھی 
نیند نا پوری ہونے کے باعث سر چکرا رہا تھا جلدی سے فرائی انڈا اور دو توس گرم کر کے ایک کپ چائے بنا کر کمرے میں جازم کے سامنے رکھ دیا ۔۔۔ ناشتہ اس نے بڑے آرام اور تسلی سے کیا تھا ۔۔ نور جہاں اس کے سامنے ہی بیٹھی تھی ۔۔
"دیکھ ببوا تیری بات میں نے مان لی اب تو میری بھی  بات کو مان لے تیرا احسان ہو گا مجھ پر
دوبارہ یہاں مت آنا ۔۔۔۔ "
” اگر آپ پانچ لاکھ لیتی ہیں تو  میرے پاس ابھی بھی  پینسٹھ لاکھ ہیں ۔۔۔۔ "چائے کا آخری گھونٹ بھرتے ہوئے جازم نے بہت مطمئن انداز سے جواب دیا ۔۔۔
” تجھے کا  لاگے ہے پیسے سے سب کچھ خرید لے گا تو "
"نہیں سب کچھ مجھے چاہیے بھی نہیں ۔۔۔ صرف آپ چاہیے ۔۔۔ ”  جازم کی بات سن کر نور جہاں نے چیک اس کے ہاتھ میں تھما دیا
"رکھ اسے اپنے پاس مجھے جرورت ناہی ہے اسکی ۔۔۔ بس تو یہاں آنا چھوڑ دے "
” نہیں چھوڑ سکتا ۔۔۔ بے بس ہوں ۔۔۔۔ "وہ بڑی معصوم سی شکل بنا مسکرا  کر بول رہا تھا 
"کاہے نہیں چھوڑ سکتا "
"جب تک آپ کو دیکھ نا لوں مجھے سکون نہیں ملتا ۔۔۔  اور مجھے سکون چاہیے ۔۔۔ اس لئے جب تک آپ میرے ساتھ نہیں جائیں گی  تو مجھے یہاں بار بار  آنا پڑے ” نظریں اب بھی اسی طرف تھیں
"تو باج (باز) ناہی آئے گا تو میں پولیس کو پکڑوا دوں گی تجھے ” نور جہاں نے دھمکی دی تھی
"ٹھیک ہے پکڑوا دیں ۔۔۔ مر گیا تو ٹھیک ہے بچ گیا تو پھر حاضر ہو جاؤں گا یہاں  آپ کے پاس ۔۔۔۔ ” جازم کی ڈھٹائی پر نور جہاں کی پریشانی بڑھی تھی ۔۔۔
” تیرے گھر ماں ناہی ہے کا ۔۔۔ شرم کر تیری ماں کی عمر کی ہوں میں ” جازم کی مسکراہٹ غائب ہوئی تھی
"ہاں میرے  گھر ماں نہیں ہے۔۔۔۔ بڑا مس کرتا ہوں اپنی ماں کو  ۔۔۔۔ ” یہ کہہ اس نے نور جہاں کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے ۔۔۔ انہیں اپنے ہونٹوں سے لگا کر چھوڑ دیا
” میں پھر آؤں گا آپ کے پاس ۔۔۔ ۔۔۔۔ "یہ کہہ کر وہ اٹھ کر چلا گیا ۔۔۔ نور جہاں اسے دیکھتے ہی رہ گئ  تھی ۔۔۔۔

******……

آراء کو رقص کے لئے کسی شادی کی تقریب میں بلایا گیا تھا ۔۔۔ وہیں اس کے حسن کا اسیر علی ہمزہ ہوا تھا ۔۔۔ ایک فلم ڈائریکٹر تھا ۔۔۔ خوبصورت چہروں کا متلاشی آرء کے حسن کو دیکھ کر دنگ ہوا تھا پھر رقص پر اسکی مہارت دیکھ کر اس ک دلدادہ ہو چکا تھا ۔۔۔۔ اس لئے ۔۔۔ چند روز میں ہی جہان بیگم کے کوٹھے پر پہنچا تھا ۔۔۔ علی ہمزہ کا آرء کو اپنی فلم کے لئے پسند کرنا اور آرء کے لئے یہاں تک کہ رسائی کر لینا ۔۔۔ جہان بیگم کے قدم زمین پر نہیں ٹک رہے تھے ۔۔۔
علی ہمزہ کے شوق اشتیاق کا یہ عالم تھا کہ جب تک آرء سامنے نہیں آ گئ اسکی نظریں آرء کی ہی متلاشی ادھر ادھر بھڑکتی رہیں ۔۔۔۔
آراء نے آداب کیا اور اسکے سامنے بیٹھ گئ علی ہمزہ نے ایک نظر آرء کو دیکھنے کے بعد جہان بیگم کو دیکھا
"کیا میں ان سے اکیلے میں بات کر سکتا ہوں "علی ہمزہ نے جہان بیگم سے اجازت مانگی
” ہاں ہاں جرور ۔۔۔ "جہان بیگم اٹھ کر چلی گئ "کچھ دیر علی ہمزہ اسے دیکھتا رہا ناوہ جوان تھا نا ہی بوڑھا درمیانی عمر کا شخص تھا ۔۔۔۔
” حسن کا پیکر ہو تم لڑکی۔۔۔ رقص بھی اچھا کر لیتی ہو ۔۔۔۔ اگر ماڈلنگ اور فلموں کی دنیا میں آؤں تو چھا جاؤں گی ۔۔۔ بائے گاڈ ” علی ہمزہ نے بڑی مسرت سے کہا
” ہم کو یہ سب ناہی آتا بابو ۔۔۔ یوں سب کے سامنے ناٹک کرنا ہمارے بس کی بات ناہی ہے ” آرء کا لہجہ سن کر علی ہمزہ بدمزہ سا ہوا تھا یہ زبان کہاں کسی فلم کی ہیروئن کے لئے موزوں تھی
” تم یوں بات کرتی ہو اردو صاف بولنی نہیں آتی کیا ؟”
"ہم کو ایسا ہی بولنا آتا ہے ۔۔۔ اماں بھی ایسا ہی بولتی ہے ۔۔۔ "
"لیکن یہ سب فلم انڈسٹری میں نہیں چلتا ۔۔۔ کتنی جماعتیں پڑھی ہو "
"ایک بھی ناہی ۔۔۔ پر  اپنا نام لکھ لیتی ہوں اردو انگریجی(انگریزی) دونوں میں۔۔۔ جہاں آرء”
"نہیں اتنا کافی نہیں ہے ۔۔۔ ” علی ہمزہ نے نفی میں سر ہلا کر کہا
"ہم ناٹک ناہی کر سکتی بابو "آرء نے اترے ہوئے چہرے سے کہا
"کیوں بھئ یہ کوئی مشکل امر تو نہیں ہے "علی ہمزہ کی بات پر آرء نے ہاتھ رکھ کر اپنی ہنسی روکنی چاہی ۔۔۔
"وہ ۔۔۔ میری ہنسی چھٹ جاتی ہے ۔۔۔ جھوٹ موٹ کے آنسوں ناہی آتے آرء کو”وہ ہسنے لگی ۔۔۔ اور یہ سچ بھی تھا وہ جیسی اندر سے تھی ویسی ہی باہر سے بھی تھی ۔۔۔۔ بناوٹی پن نہیں تھااس میں ۔۔۔ نا ہی بناوٹی بن سکتی تھی ۔۔۔۔
"یہ سب سیکھانا میرا کام ہے ۔۔ ہیرے کو تراش کر نایاب بنانا  جواہری کا کام ہوتا ہے ۔۔ ہیرے کا نہیں ۔۔۔ "علی ہمزہ کی نظریں اسکے پورے وجود پر رقص کر رہیں تھیں ۔۔۔
” اب میں چلتا ہوں کل گاڑی بھیجوں گا اپنی تیار رہیے گا ۔۔۔ اور یہ پورے پچاس ہزار کیش جہاں بیگم  کو دے دیجیے گا ” علی ہمزہ پیسے  دے کر چلا گیا اسی لمحے عبدالباسط اندر داخل ہوا تھا ۔۔۔علی ہمزہ کو جاتے دیکھ چکا تھا عبدالباسط کو  دیکھ کر آرء کا چہرہ کھلا تھا اٹھ کر خود سے اسکے پاس آئی تھی
"عبدالباسط آج تو تو سر شام ہی آگیا ۔۔۔۔ یقین نہیں آ رہا ” وہ خوشی  سے جھوم ہی تو اٹھتی تھی اسے دیکھ کر ۔۔۔ لگتا تھا کوئی شادیانے بجنے لگے ہیں ۔۔۔۔ لگتا تھا چار سو بہار ہے رونق ہے ۔۔۔دل کی دنیا بھی عجیب ہوتی ہے کسی ایک شخص سے سارا ماحول بدل جاتا ہے ۔۔۔ 
"ہاں سوچا کچھ وقت باتیں کریں گئے ۔۔۔ بہت  کچھ کہنا چاہتا ہوں آپ سے "
"ہاں کیوں نہیں ۔۔۔ چلو نا اندر چلتے ہیں "آرء کے ساتھ ہی وہ کمرے میں آ گیا تھا ۔۔۔
” شربت لاؤں تمہارے لئے پیاس تو لگی ہو گی ” ہاتھ میں پکڑے پیسوں کا بنڈل آرء نے سامنے دیوار گیر الماری کھول کر رکھ دیا اور پلٹ کر عبدالباسط سے پوچھنے لگی
"نہیں بس یہاں میرے پاس بیٹھ جائیں ” عبدالباسط  بہت سنجیدہ سا لگ رہا تھا ۔۔۔ آرء اسکے سامنے بیٹھ گئ
” آرء یہ کون تھا جو آیا تھا ؟ پہلا خدشہ عبدالباسط کی زبان سے نکلا تھا
"فلمیں بناتا ہے مجھے کسی کی شادی پر ناچتے دیکھ  کر فدا ہو گیا تھا مجھ پر ۔۔۔ اس لئے چاہتا کہ میں اسکی فلم میں کام کروں "
"فلم میں ؟ ” عبد الباسط متفکر ہواتھا چہرے پر ناگواری سی ابھری تھی
” یہ بڑی سی سکرین پر لگے گی سنما گھر میں میری فلم  ۔۔۔ تم آؤں گئے نا دیکھنے ” آرء نے ہاتھ پھیلا کر اسکرین کا بتا کر بڑے  اشتیاق سے پوچھا
"آرء آپ کسی فلم میں کام نہیں کریں گی "عبدالباسط نے جیسے التجا نہیں کی تھی بس حکم دیا تھا
"کاہے عبدالباسط ۔۔۔ یہ دیکھ پچاس ہجار پیشگی دے کر گیا ہے جو میں نے الماری میں رکھا ہے  باقی بعد میں دے گا ۔۔۔ "
” بس میں نے کہہ دیا آرء آپ فلم نہیں کریں گی ۔۔۔کیا میری ایک بات بھی نہیں رکھ سکتیں ” عبدالباسط جیسے بے چین سا ہوا تھا
” میری مرجی کہاں چلتی ہے عبدالباسط اماں چٹیا کھنچ کر چار جھانپڑ مارے گی منہ پر۔۔ ہاتھ بڑا بھاری ہے اماں کا ایک بار میں ہی انگلیاں گال پر چھپ جاتی ہیں ۔۔۔ ” آرء کے چہرے پر خوف سا اترا تھا
” آپ سمجھ کیوں نہیں رہیں آرء  دلدل ہے وہ دھنس جائیں گئیں وہاں چاہ کر بھی نکل نہیں سکیں گی  ” عبدالباسط کی آنکھوں میں بے بسی اتری تھی
"تو یہ کا ہے بابو یہاں کون سی عجت کی جندگی ہے  ۔۔۔۔ فرق کا ہے ۔۔۔ کوئی بھی تو ناہی "آرء نے کمرے اور کوٹھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
"یہاں آنے والے اور آپ کو جاننے والے پچاس یا سو ہیں وہاں دیکھنے والے لاکھوں ہوں گئے ۔۔۔ دیواروں پر پوسٹر لگیں گئے ۔۔۔ وہ  بھی عجیب بے حیاوں والے ۔۔۔۔ سنما گھروں میں آنے والوں کی  ہزاروں نظریں پڑیں گئیں آرء ۔۔۔۔۔ گندی غلیظ نظریں ۔۔۔ میں نے  تو چند دن پہلے والی اذیت کو بڑی مشکل سے سہا ہے جو گھنٹے آپ نے ایک اجنبی کے ساتھ گزارے تھے  صحن میں کھڑے ایک یک لمحہ تڑپا تھا میرا دل  ۔۔۔  اور یہ فلم سنیما یہاں تک پہنچنے کے لئے نا جانے کتنوں کے بستر پر جانا پڑے گا ۔۔۔یہ سب دیکھ کر تو شاید مر جائے گا عبدالباسط ۔۔۔۔ ” عبدالباسط کی آنکھیں ضبط کے باوجود چھلکیں۔ تھیں ۔۔۔۔ آرء چپ سی ہو گئ تھی اسکی محبت اور غیرت کا کیا امتحان لیتی اسکا کرب اسکی بہتی آنکھیں اور درد سے ڈوبا لہجہ بتا رہا تھا کن اذیتوں سے گزر رہا ہے۔۔۔۔ پھر کچھ ہمت کر کے بولی
” ایسا  ہے تو اپنی راہ بدل لے بابو ۔۔۔۔ کیونکہ جب جب تو یہاں آئے گا یہی سب دیکھنے کو ملے گا ” وہ نظریں چرا کر پیچھے ہٹ گئ لہجہ خود کا بھی بھیگ چکا تھا
” میں آپ کو یہاں سے لے جاؤں گا بہت دور ” عبدالباسط نے اپنی آنکھوں کو رگڑ کر صاف کیا تھا۔۔۔ لہجے سے لگا کہ سچ میں لے ہی جائے گا اسے کہیں دور 
” کہیں ناہی جا سکتی میں ۔۔ مار ڈالیں مجھے بھی اور تجھے بھی ۔۔۔ ” آرء پہلی بار خوفزدہ ہوئی تھی
” صرف پیسہ چاہیے انہیں میں دیدوں گا۔۔۔۔ آرء میرے بابا کے گاؤں میں زمین ہے  جو میرے نام ہے میں چند دن میں اسے بیچنے جارہا ہوں اباسے کہہ دوں گا پیسے ڈاکوں نے راستے میں  لوٹ لئے اور سب لا کر جہاں بیگم کے قدموں میں رکھ دوں گا ۔۔۔ لیکن آپ کو یہاں نہیں رہنے دونگا ۔۔۔۔” عبدالباسط کی بے چین آنکھیں سچ ہی تو کہہ رہیں تھیں
” کتنی قیمت ہے اس زمین کی ” آرء نے پوچھا
"ایک لاکھ پچیس ہزار "
” تین لاکھ وہ فلم والا اماں کو دے رہا ہے ۔۔۔۔ وہ بھی مجھے بنا خریدے ۔۔۔اماں تجھے بھلا کیوں مجھے سونپ دے گی سونے کے انڈے دینی والی مرغی کو کون بھلا گھاٹے میں دیتا ہے "
” جہان بیگم کو چھوڑیں مجھے آپ اپنی مرضی بتائیں ۔۔۔ آپ دیں گئیں ۔میراساتھ ” عبدالباسط اس کے سامنے کھڑا ہو گیا تھا بڑی پر امید نکھوں سے دیکھ رہا تھا کیسے انکار کر دیتی وہ کر ہی نہیں سکتی تھی لیکن حقیقت سے بھی منہ نہیں موڑ سکتی تھی
” مولوی کا بیٹا ہے تو؟ ۔۔۔۔ چل۔ ۔۔۔ ایک پل سوچ لے میں تیرے ساتھ بھاگ بھی گئ تو کیا تیرے گھر والے قبول کریں گئے مجھے ؟ دیں گئے عجت۔۔۔۔ ؟ "اس بار چپ ہونے کی باری عبدالباسط کی تھی ۔۔۔
” اب کاہے چپ ہے ۔۔۔ بول ناں عبدالباسط ہے کوئی جواب ۔۔۔ نا ہی ہے۔۔۔۔  میں بتاتی ہوں ۔۔۔۔ تیرے میرے راستے الگ ہیں ۔۔۔ دل جڑ جانے سے نصیب ناہی جڑتے بابو ۔۔۔۔ ہاں آرء یہ وعدہ کرتی ہے کہ دل میں تیرے علاؤہ کسی کو جگہ ناہی دے گی  کبھی بھی ۔۔۔ "
” میں چند دن بعد آؤں گا پیسے لیکر ۔۔۔۔آپ کو لینے  "عبدالباسط اپنی بات پر قائم تھا ۔۔۔
” ٹھیک ہے کر لینا اماں سے بات ۔۔ آرء کا بھی وعدہ ہے تیرا ساتھ دے گی چاہے اماں میری جان لے لے  ” عبدالباسط چلا گیا
*****……

حیا ریسورنٹ میں اکیلی بیٹھی ارسل کا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔ آج دونوں نے لنچ ایک ساتھ کرنا تھا ۔۔۔ لیکن وہ ابھی تک پہنچا نہیں تھا دوسری جانب رومان کی فرمائش پر ارتضی سے لنچ کے لئے۔ جی ریسٹورنٹ پر لیکر آیا تھا ۔۔۔ ابھی وہ بیٹھ کر مینوں ہی ڈسائیڈ کر رہے تھے جب حیا ان کے سامنے آ بیٹھی
” سر کیا کچھ دیر یہاں بیٹھ سکتی ہوں ؟”
"میرے خیال سے آپ بیٹھ چکی ہیں ” ارتضی نے مدافعانہ انداز سے کہا
_”اوہ یس میرا مطلب ہے آپ ماینڈ تو نہیں کریں گئے ایکچلی مجھے کسی کا انتظار ہے میں نے سوچا اکیلے بیٹھ کر کیا انتظار کرتی رہوں کچھ دیر آپ کے پاس بیٹھ جاتی ہوں وقت اچھا کٹ جائے گا  "
” وقت اچھا کٹے گا یا  پھر کسی سے شرط لگائی ہے آپ نے ۔۔۔ "
"شرط ؟”حیا حیران ہوئی تھی
"اوہ سوری۔۔۔ آپ تو  ٹرتھ اینڈ ڈیر  کی شوقین ہیں ۔۔۔ بلکہ ٹرتھ سے تو  آپ کا کوئی واسطہ نہیں ہے بس ڈیر کرنے کا  شغف ہے”
"نو سر آج تو واقع ہی کسی کا ویٹ کر رہی ہوں ۔۔۔ یہ کون ہے ” حیا نے ارتضی کے ساتھ  خاموشی سے بیٹھے رومان کی طرف اشارہ کر کے پوچھا
"میرا بیٹا ہے رومان ۔۔۔ "
"ہائے رومان ہاؤ آر یو ” حیا نے اپنا ہاتھ اسکی طرف بڑھایا اس نے بھی مسکرا کر ہاتھ ملا کر پیچھے کر لیا
"اور آپکی وائف ؟”
"جی وہ نہیں ہیں ۔۔۔ she is dead”
” اوہ ایم سوری سر ۔۔۔ کب ہوا یہ سب مطلب آپکی وائف ؟”
"بہت وقت گزر چکا ہے اس بات کو "
"اوہ وری سیڈ ۔۔۔ لیکن آپ نے پھر دوسری شادی کیوں نہیں کی ” حیا نے چہرے پر اداسی لاتے ہوئے پوچھا یہ اچھا موقع تھا ارتضی کی نظر میں اپنے نمبر بڑھوانے کا پڑھائی میں وہ ویسے اتنی اچھی نہیں تھی پھر کئ بار اس سے ڈانٹ بھی کھا چکی تھی اور اب تو وہ اسے خاص توجہ بھی نہیں دیتا تھا ۔۔ اس لئے حیا نے  سوچا کہ اسکی تعریف کر کے  ۔۔۔ اور اسکی ہمدردی حاصل کر لے تا کہ کلاس میں مروتا بھی وہ اسے ڈانٹ ناسکے
” مجھے نہیں لگتا کہ مجھے اسکی ضرورت ہے ” ارتضی کو یہ موضوع  ہی پسند نہیں تھا
"ارے ضرورت کیوں نہیں ہے  گھر کے سو کام ہوتے ہیں جو صرف بیوی ہی کر سکتی ہے ۔۔ پھر آپ کون سے بوڈھے ہو چکے ہیں اچھے خاصے ہیں آپ سے تو کوئی بھی لڑکی شادی کے لئے  تیار ہو سکتی ہے ” ارتضی تو چپ ہی رہا البتہ رومان کا یہ پسندیدہ موضوع تھا
"جی ہاں میں بھی انہیں یہی سمجھاتا ہوں ۔۔۔  انکی عمر ہی کیا ہے کوئی بھی لڑکی بڑی آسانی سے شادی کے لئے راضی ہو جائے گی لیکن یہ میری سنے تب نا ۔۔۔ آپ ٹھیک کہہ رہی۔ ہیں آنٹی مجھے تو   ایک عدد ماں کی بہت ضرورت ہے ۔۔۔ جو اچھے اچھے کھانے بنائے ۔۔۔ میرا یونیفارم پریس کرے میرا خیال رکھے مجھ سے ڈھیر ساری باتیں بھی کرے ” رومان کا ٹیپ ریکارڈر شروع ہو چکا تھا
"باقی سب تو ٹھیک لیکن  یہ آنٹی میں تمہیں کہاں سے لگتی ہوں ۔۔۔ مشکل سے دس سال ہی تم سے بڑی ہوں گئ۔۔۔” حیا کو اپنے لئے لفظ آنٹی بہت ان فٹ سا لگا تھا ۔۔۔ارتضی بے اختیار مسکرایا تھا ۔۔۔ یہ لفظ تو چالیس سالہ خاتون کو بھی برا لگتا ہے وہ توواقع اس لحاظ سے کافی کم عمر تھی ۔۔۔
” سر اگر آپ کہیں تو میں آپ کے لئے لڑکی ڈھونڈ دوں ” حیا نے اپنی خدمات پیش کرنی چاہیں
"جی نہیں ۔۔۔ اسکی ضرورت نہیں ہے ۔۔”
” سر میں سیریسلی کہہ رہی ہوں آپ جیسے ڈیشگ شخصیت کے مالک شخص سے شادی سے کون انکار کر سکتا ہے اٹلیس مجھے بھی اگر ایسا موقع ملے تو میں بھی ہاں کر دوں اتنے اچھے لگتے ہیں آپ مجھے  ” ارتضی کی نظر میں اچھا بننے کے چکر میں کچھ زیادہ ہی بول گئ تھی ذرا احساس تک نہیں تھا کہ کہہ کیا گئ ہے ۔۔۔ارتضی ایک ٹک اسے دیکھنے لگا تھا ۔۔۔  حیا کی بات تو اسے بہت بری اور عجیب لگی تھی ۔۔۔ وہ کم عمر تھی امیر تھی اور سب سے بڑی بات کہ اسکی شاگردہ تھی اس قسم کی بات کی توقع وہ اس سے نہیں کر سکتا تھا اگر رومان وہاں نا ہوتا تو یقینا سخت جواب وہ حیا کوضرور دیتا ۔۔۔۔
سامنے ارسل کو دیکھ کر وہ سب کو بھول بھال اسکی طرف بڑھی تھی
"کہاں رہ گئے تھے تم۔۔۔” حیا نے خفگی سے پوچھا
"بس پاپا نے آفس بلا لیا تھا بڑی مشکل سے جان چھڑا کر آیا ہوں ” ارسل نے کہا
"اچھا آؤں تمہیں اپنے سر سے ملواں "حیا ارسل کو ارتضی کے پاس لے گئ
"سر ان سے ملیں یہ ارسل ہیں میرے کزن اور فیانسی”
ارتضی اٹھ کر ارسل  سے ملا تھا ۔۔۔۔
” آپ حیا کے سر ہیں "ارسل نے سر پیر تک ارتضی کو دیکھا کوایک شاندار شخصیت کا مالک تھا ۔۔۔
"آپ کو تعجب کس بات پر ہے "
"یو آر لوکنگ سو ینگ ۔۔۔ مطلب پرفیسر کا نام سنتے ہی کہ سفید بالوں اور موٹے سے نظر کے گلاسز پہنے شخص کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے ۔۔۔ لیکن آپ تو خاصے ڈفرنٹ ہیں ۔۔۔ "
” تعریف کا بہت شکریہ ۔۔۔ دیکھنے میں ہی آپ کو ایسا لگا ہوں ۔۔۔ورنہ عمر میری پروفیسروں والی ہی ہے ” ارتضی نے جواب سنجیدگی سے ہی دیا تھا
٫اینی وئے بہت خوشی ہوئی آپ سے ملکر "ارسل نے دوبارہ سے ارتضی سے ہاتھ ملایا گویا ادوع چاہتا ہو ارسل نے  حیا کے گرد اپنا بازو رکھ چکا تھاوہ کچھ نروس سی ہوئی تھی ۔۔۔ لیکن ارتضی کے سامنے چپ رہی
” آئیں لنچ بس آنے والا ہے آپ بھی ہمہیں جوائن کریں "ارتضی نے بھی رسما ہی کہا تھا ورنہ جس بے باکی کا ۔ظاہرہ وہ حیا کے ساتھ دیکھا رہا تھا ارتضی نظریں جھکا گیا تھا
"تھنکس یو سو مچ لیکن ہم کچھ پریوسی چاہتے ہیں ۔۔۔ یو مسٹ انجوائے یور لنچ "ارسل نے حیا کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا
"”ارسل یہ کیا کر رہے ہو تم ” حیا اسکی اس قسم کی حرکت سے زچ ہوئی تھی
"کم آن سوئٹ ہارٹ بور مت کرو مجھے ” یہ کہہ کر وہ سامنے ٹیبل پر حیا کو لے گیا تھا ۔۔۔ ارتضی کا لنچ آ چکا تھا لنچ کے دوران بھی گاہے بگاہے ارتضی کی نظریں نا چاہتے ہوئے بھی ان پر اٹھ رہیں تھیں ۔۔۔ حیا کا موڈ بہت خراب لگ رہا تھا ۔۔۔ اور وہ لڑکا جواس کا فیانسی تھا وہ مزے سے لنچ کر رہا تھا ۔۔۔۔
ارتضی لنچ کرتے ہی وہاں سے چلا گیا تھا ۔۔۔۔ حیا کے لئے اسکے خیالات پہلے بھی کچھ ذیادہ پوزٹیو نہیں تھے ۔۔۔ امیر باپ کی کچھ بگڑی اور ضدی بیٹی تھی ۔۔۔ لیکن آج یہ سب دیکھ کر اسے افسوس بھی ہوا تھالڑکیوں میں شرم حیا کا ہونا ضروری ہے ۔۔۔ پھر لباس کا انتخاب ہی اس قسم کا بے حجابانہ ہو تو ساتھ آنے والے سے شرافت کیا اکسپکٹ کی جاسکتی ہے ۔۔۔ جسے وہ منگتر کہہ کر متعارف کروارہی تھی ۔۔۔ ایک آزاد خیال اوباش نوجوان تھا ۔۔۔۔ زندگی نے اتنی پہچان تو کروا ہی دی تھی ارتضی کو  کہ دیکھ کر اندازہ لگا سکے کے کہ کون کیسا ہے ۔۔۔۔
*****……

"تم ۔۔۔ تم یہاں کیسے ۔۔۔۔ کیوں آئے ہو تم ۔۔۔۔ جاؤں یہاں سے چلے جاؤں ۔۔۔۔ ” تانیہ نیم بے ہوشی میں بڑبڑا رہی تھی ۔۔۔۔ وہ فورا سے اسکے قریب آیا تھا
"تانی تانی  آر یو آل رائیٹ ۔۔۔”
” مجھے۔ بچا لو اس سے۔۔۔یہ  مجھے برباد کر دے گا ۔۔۔
کہیں کا نہیں چھوڑے گا ” وہ نیم بے ہوشی میں پسینے سے شرابور بول رہی تھی ۔۔۔ اسکے شوہر نے اسکے چہرے کو تھپتھپایا تو وہ ڈر کر ہڑبڑا کر اٹھ کر سامنے اپنے شوہر کے سینے سے لگ کر رونے لگی
"برباد کر دے گاوہ مجھے کہیں کا نہیں چھوڑے گا ۔۔۔ مجھے اس سےبچا لو ۔۔۔ مجھے کہیں چھپا لوجھے دیکھ لے گا ۔۔۔ مجھے زبردستی اپنے ساتھ لے جائے گا  ۔۔۔۔ "
” تانی تانی میں ہوں تمہارے پاس ۔۔۔ کیوں پریشان ہو کوئی تمہیں چھو بھی نہیں سکتا کیوں ڈر رہی میری طرف دیکھوں ادھر ” اس نے پہلے تانیہ کو اپنے ساتھ بینچ لیا اپنے ہونے کا احساس دلایا کہ شاید اسکاخوف کم ہو سکے لیکن نہیں وہ اسی ٹرانس میں تھی ۔۔۔ اسکے بعد اسے خود سے ذرا سا پیچھے کیا ۔۔ اسکی  آنکھوں میں خوف کے علاؤہ اور کچھ نہیں تھا ۔۔۔
” ادھر دیکھوں ۔میری طرف  ۔۔۔۔ میں ہوں ۔۔۔ "
"آپ نہیں جانتے وہ ۔۔۔۔ وہ ۔۔۔ مجھے برباد کر دے گا اس نے مجھے پہلے بھی برباد کیا تھا ۔۔۔ مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا تھا ۔۔۔ آپ جانتے ہو نا ۔۔۔ "
” تانیہ ۔۔۔ کوئی نہیں ہے یار پلیز باہر آ جاؤں اس خوف سے "

"کیسے باہر آجاؤں ۔۔۔۔ کیسے ۔۔۔۔ کیسے باہر آ سکتی ہوں ۔۔۔۔ نہیں آ سکتی "
"میں ہوں نا ۔۔۔۔ "
"آپ مجھے چھوڑیں گئے تو نہیں ناں ۔۔ خدا کے مجھے چھوڑنا مت ورنہ وہ مجھے برباد کر دے گا ۔۔۔ مجھے آج کے بعد کہیں نہیں جانا ۔۔۔ مجھے گھر سے باہر نہیں نکلنا ۔۔۔ باہر وہ ہے ۔۔۔ وہ مجھے برباد کر دے گا بدلہ لے گا مجھ سے ۔۔۔ اس جرم کی سزا دے گا جو میں نے کیا ہی نہیں ہے "
"تانیہ۔۔۔ بس ۔۔۔ ختم کروں اس بات کو ۔۔۔۔ کیوں مجھے آزمائشوں میں ڈال رہی ہو تم ۔۔۔بھول کیوں نہیں جاتی ہو وہ سب کچھ جو بیت گیا ہے ” وہ تھکنے لگا تھا تانیہ کی اس طرح کی حالت پر جب بھی کہیں باہر جاتی تھی ہر دوسرے مرد کو دیکھ کر ایسا ہی ریایکٹ کرتی تھی ۔۔۔ ابھی بھی بے تحاشہ رو رہی تھی بلک رہی تھی ۔۔۔
” م۔مم۔۔میں ۔۔۔میں بھولنا چاہتی ہو ۔۔۔۔ م۔مم۔میں بھولنا چاہتی ہوں ۔۔۔لیکن  وہ بھولنے نہیں دیتا ۔۔۔ میرے سامنے آ جاتا ہے مجھے ڈراتا ہے ۔۔۔۔ ” وہ بے بسی سے تڑپ رہی تھی رو رہی تھی ۔۔۔
"تانیہ خدا کے لئے ہوش میں آؤں ۔۔۔۔ مجھے کس بات کی آزادی رہی ہو ۔۔۔ میں ہوں نا کوئی تمہیں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔۔۔ چھو بھی نہیں سکتا ۔۔۔ میرا یقین کرو۔ میں جان سے مار ڈالوں گا اسے اگر وہ سچ میں مجھے نظر آ گیا تو ۔۔۔ بس تم ڈرنا چھوڑ دو ۔۔۔۔
"میں اب کبھی باہر نہیں جاؤں گی ۔۔۔ دروازہ بند کر دیں پلیز ورنہ وہ اندر آ جائے گا ۔۔۔مار ڈالے گا مجھے ۔۔۔”
وہ اب بھی اسکی شرٹ کو زور سے پکڑے خوف سے بول رہی تھی ۔۔۔۔
"او کے مت جانا کہیں ۔۔۔۔ لیکن چپ ہو جاؤں رونا بند کرو "
با مشکل ہی وہ اسے سنبھال پایا تھا ۔۔۔۔ سامنے رکھے جگ سے پانی بھر کر اسے پلانے لگا ۔۔۔۔
*****……..

کالج میں آج گہما گہمی تھی ۔۔۔۔ کسی نیوز  چینل کی طرف سے چند لڑکے وہاں موجود تھے انہیں کے پاس  اسٹوڈنٹ کا ہجوم لگا تھا حیا بھی اقرء کا ہاتھ تھامے اسے لیکر خود بھی اس ہجوم کا حصہ بن گئ تھی ۔۔۔ اسٹوڈنٹ کو ہٹاتی ہوئی آگے جا کھڑی ہوئی
وہ لڑکا کالج میں ہونے والی تقریری مقابلے کے بارے میں منعقد ہونے مقابلے کے بارے میں اسٹوڈنٹ سے پوچھ رہا تھا ۔۔۔۔ حیا مایوس سی ہوئی تھی ۔۔۔۔ ان سب چیزوں سے اس کا کچھ خاص تعلق جو نہیں تھا ۔۔۔۔
"لو میں سمجھی پتہ نہیں کوئی خاص خبر آنے والی ہے ۔۔۔ مگر یہ سب تو عام سی ہی باتیں ہیں ۔۔۔کوئی دیکھتا بھی نہیں ہے  ان خبروں کو پہلی فرصت میں ریموڈ سے چینل بدلتے ہیں سب ۔۔۔۔۔
انٹر ویو لینے والا لڑکاحیا کی بات سن کر برجستہ اسے دیکھنے لگا لڑکی حسین تھی اور با اعتماد بھی اس وقت کیمرہ آف تھاوہ لوگ صرف اسٹوڈنٹ سے انکی تیاری کے بارے  میں پوچھ رہے تھے ساتھ ہی ساتھ کولڈرنک پی رہے تھے وہ لڑکی حیا کے سامنے کا کر کھڑا ہو گیا
” تو آپ کسی خاص خبر کے بارے میں انکشاف کر دیں ۔۔۔ ہم اسکی دھوم مچا دیتے ہیں "اس لڑکے نے استزائیہ مسکراہٹ سے  کہا
"میں خود ایک چلتی پھرتی خاص خبر ہوں ۔۔۔۔ سیلمان انڈسٹریز  کی پورے شہر میں دھوم ہے انکی اکلوتی بیٹی یوں میں "حیا نے اترا کر کہا
"اوہ اچھا اچھا  تو سلیمان انڈسٹریل کے مالک کی  بیٹی ہیں آپ ؟ اس لڑکے نے مصنوعی تعجب کا اظہار کیا
"جی ہاں "حیا ابرو چڑھا کر فخر سے بولی تووہ لڑکا ہسنے لگا حیا کو لگاوہباز کا مزاق اڑا رہا ہے اس لئے تیوری چڑھائے اسے دیکھنے لگی 
” میڈیم ہم میڈیا کے لوگ ہیں۔۔۔۔ ہمہیں خبریں چاہیے ہوتی ہیں جو لوگوں کی نیندیں اڑا دیں کسی بڑے باپ کی بیٹی ہونا کوئی خاص خبر نہیں ہے ہاں بڑے باپ کی بیٹی ہونے ساتھ ساتھ کچھ ایسا کرنا کہ جو کسی نے کیا نا ہو وہ خاص خبر ہوتا ہے ۔۔۔ یہ میرا رکھ لیں ۔۔۔ جب کوئی انوکھا کارنامہ کرنے موڈ کو تو بتا دیجیے گا ۔۔۔۔ میں حاضر ہو جاؤں گا ” اپنا کارڈ دے کر وہ لڑکا دوبارہ اسٹوڈنٹ کی طرف متوجہ ہو گیا ۔۔۔  حیا برے سے منہ بناتی ہوئی وہاں سے چلی گئ ۔۔۔۔
چند دن گزرنے کے بعد ہی ارتضی اپنے کسی دوست سے ملنے ایک ہوٹل میں گیا جو دوسرے شہر سے آیا تھااور ہوٹل کے روم میں اس نے ارتضی کو ملاقات کے لئے بلایا تھا ۔۔۔ وہ رسپشن سے روم نمبر کا فلور پوچھ پر  یہ پوچھ کر لفٹ سے دوسری منزل پر پہنچا تھا سامنے بڑی راہداری تھی اطراف میں کمرے تھے ۔۔۔۔ کافی مہنگا ہوٹل تھا ۔۔۔۔ فرش بھی شیشے کی مانند چمک رہے تھے ۔۔۔ ۔۔ کوریڈور سے گزرتے ہوئے وہ اپنا مطلوبہ کمرہ دیکھ رہا تھا جب  چند کمرے چھوڑ کر ایک کمرہ کھلا بہت تیزی سے اس کمرے سے ایک لڑکی نکلی تھی ۔۔۔ رو رہی تھی ارتضی نے سرسری سا دیکھ کر دوبارہ سے کمرہ ڈھونڈنے لگا لیکن چہرہ اتنا شاناسا تھا کہ وہ دوبارہ پلٹ کر دیکھنے پر مجبور ہوا تھا وہ حیا تھا ۔۔۔ اور اسکے ساتھ اس کاوہی کزن تھا جسے وہ اپنا فیانسی بتا رہی تھی۔۔۔ وہ تیزی سے آگے بھاگنے کے انداز سے لفٹ کی جانب بڑھ رہی تھی اور اس کا کزن بھی اسکے پیچھے تیز قدموں سے چل رہا تھا
” حیا فورگاڈ سیک کیا پاگل پن ہے یہ۔۔۔ ٫
” شٹ اپ ارسل تم یہ سب کروں گئے ۔میرے ساتھ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی ۔۔۔ میں آغا جی سے بات کروں گی
” اوہ جسٹ شٹ اپ یو فول ۔۔۔ تم ایسا کچھ نہیں کروں گی ایسا کچھ غلط نہیں ہوا ہے ہمارے درمیان ۔۔۔۔تم میری ہونے والی بیوی ہو ۔۔۔ یہ سب چلتا ہے ۔۔۔ "
"نہیں دور رہو ۔مجھ سے ۔۔۔ ورنہ چلانا شروع کر دوں گی ۔۔۔ "ارتضی کو ان دونوں نے نہیں دیکھا تھا یاوہ اپنی ہی بات میں اس قدر مگن تھے کہ ادھر ادھر نظر ہی نہیں گئ تھی ۔۔۔۔ اس سے پہلے وہ لڑکا حیا کے ساتھ لفٹ میں بیٹھتا حیا لفٹ بند کر چکی تھی ۔۔۔۔
"اوہ شٹ” وہ غصے سے بولتا ہوا سیڑیاں اترنے لگا ۔۔۔ اتنی دیر میں ارتضی کے دوست نے بھی دروازہ کھول دیا ۔۔۔کافی دیر وہ لوگ گپ شپ لگاتے رہے لیکن  ارتضی بار بار ذہن حیا کی باتوں کی طرف ہی لگا ہوا تھا ۔۔۔۔
لیکن یہ اسکی ذاتی زندگی تھی ۔۔۔۔ اس لئے وہ کیا کہہ سکتا تھا۔۔۔۔۔ اکیلی لڑکی کا یوں کسی ہوٹل کے روم میں آنا چاہے کزن یا منگتر ہی کیوں نا ہو ۔۔ غیر مناسب سی بات تھی ۔۔۔۔ اور آجکل کی لڑکیاں اتنی بھی انجان نہیں کہ یہ نا جانے سکے کہ  لڑکا ہوٹل کے روم میں کیوں لے جانا چاہتا ہے ۔۔۔۔۔ تاسف ہی تاسف تھا افسوس ہی افسوس۔۔۔ اس نے ذہن کو جھٹکا تھا ۔۔۔۔ پھر اس واقعے کو غیر ضروری سا سمجھ کر بھلا بھی دیا ۔۔۔۔ لیکن اس واقع کے بعد حیا کلاس میں  بہت سنجیدہ سی لگنے لگی تھی کچھ کھوئی کھوئی سی ۔۔۔۔

چند دن بات کلاس میں  ٹیسٹ تھا لیکن حیا کو یاد نہیں تھا ۔۔۔۔ اس لئے ساتھ بیٹھی حمیرا کو کہنیاں مار رہی تھی کہ وہ اپنا ٹیسٹ پیپر اسے دیکھا دے۔۔۔۔ حمیرا اور وہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھتی تھیں اس لئے چیٹنگ کا موڈ نا ملنے کے برابر ہی ہوتا تھا ۔۔۔۔ حمیرا کبھی تو ارتضی کی نظروں سے بچا کر حیا کو پیپردءکھا دیتی اور کبھی حیا کو گھورنے لگتی کہ اپنے ساتھ مجھے کیوں پھنسوا رہی ہو ۔۔۔۔
انکی اشارے بازیاں ارتضی سے مخفی نہیں تھیں ۔۔۔۔ شاگردوں کی ایسی چھوٹی موٹی چوریاں کسی بھی استاد کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتیں ۔۔۔ لیکن وہ خود کچھ نرمی دیکھا جاتے ہیں اور شاگرد سمجھتے ہیں کہ انہوں نے استاد کو مات دیدی ۔۔۔۔ کچھ دیر تو ارتضی نے بھی نظر انداز کر دیا لیکن حیا تقریبا حمیراہی سے پوچھ رہی تھی ۔۔۔ یہ تو حمیرا کے ساتھ ذیادتی تھی ۔۔۔ محنت اسکی تھی ۔۔۔ اس لئے وہ حیا کی سیٹ کے پاس آ گیا ۔۔ وہ بوکھلا سی گئ تھی 
"سر وہ۔۔۔ "حیا کھڑی ہو گئ لیکن ارتضی نے حمیرا کو مخاطب کیا
"حمیرا جا کر پیچھے بیٹھیں ” ارتضی نے سخت لہجے سے کہا حمیراسر ہلاتی ہوئی پیچھے بیٹھ گئ
"حیا آپ بیٹھ جائیں "
"سر آپ کیا سمجھتے ہیں میں چیٹ کر رہی تھی "حیا نے تنفر سے دیکھتے ہوئے کہا غصہ یہ تھا کہ حمیرا کی سیٹ کیوں چینج کر دی گئ
” نہیں آپ کہاں کسی کو چیٹ کرتی ہیں ایکچلی حمیرا آپکا چیٹ کر رہی تھی ۔۔۔۔ ناؤ سٹ ڈاؤن حیا ڈو یور ورک  "
حیا غصے سے بیٹھ گئ ۔۔۔ اب اسکی نظر سامنے بیٹھی اقرء پر تھی ۔۔۔ وہ اقرء سے اشارے بازی میں پوچھنے لگی ۔۔۔۔ ارتضی تنگ آ چکا تھا اس لئے اس کا پیپر چھین کر سائیڈ پر رکھ دیا
"آپ اورل ٹیسٹ دیں گی حیا ناؤ اسٹینڈ اپ  "حیا کھڑی ہو گئ یاد اس نے کچھ کیا نہیں تھا کافی دن سے آپ سیٹ تھی ۔۔۔
How many types of stanza?
پہلا سوال ارتضی نے کیا تھا جواب میں بلکل خاموشی تھی ۔۔۔
.  "ولیم شکسپیر کے پہلے تھیٹر کا نام بتائیں اور جس سن میں یہ بنایا گیا تھا وہ بھی بتائیں ؟ ۔۔۔۔
حیا بلکل چپ کھڑی رہی
"میں آپ سے پوچھ رہا ہوں مس حیا ۔۔۔۔”  ارتضی نے زور دے کر پوچھا ۔۔۔لیکن وہ چپ سر جھکائے کھڑی رہی
” چلیں رومیو جولیٹ کی بات کر لیتے ہیں میرے خیال سے یہ تو بہت دلچسپ ناول تھا ان کا ۔۔۔۔
رومیوں اور جولیٹ جس خاندان سے تعلق رکھتے تھے ان کے نام بتا دیں حیا ۔۔۔ میرے خیال سے اس سوال کا جواب تو اس کلاس کے سب ہی اسٹوڈنٹ دے سکتے ہیں ۔۔۔” ارتضی کی بات پر وہ اب بھی خاموش تھی ۔۔۔
"یہ تیاری کر کے آئیں تھی آپ ٹیسٹ کی ؟ آپ یہاں شاید پڑھنے کے بجائے صرف اچھاوقت گزارنے آتی ہیں ۔۔۔
اتنے بیسک اور عام سے سوالوں کے جواب بھی آپ دے نہیں پا رہیں لیکچر کے دوران دھیان کدھر ہوتا ہے آپ کا ۔۔۔۔ "
ارتضی کا لہجہ سخت اور بلند ہوا تھا ۔۔۔
” ناو گیٹ آؤٹ فروم ہیر ۔۔۔ باہر جا کر کوریڈور میں نیل ڈوان ہو جائیں ” ارتضی نے غصے سے کہا
"واٹ "حیا نے بے یقینی سے ارتضی کی طرف دیکھا  تھا
"میں نیل ڈاؤن ہو جاؤں؟ ۔۔۔ کوریڈور میں ۔۔۔؟” حیا نے تعجب سے شہادت کی انگلی اپنی جانب کر کے کہا
”  ایکسکیوز می سر میں کوئی پرائمری کلاس کی اسٹوڈنٹ نہیں ہوں جو آپ مجھے  اس قسم کی پنشمنٹ کریں ۔۔۔۔ "
” میرے خیال سے تو آپ کو کالج کے بجائے کسی اسکول میں ہی ہونا چاہیے ۔۔۔ اتنی ان سیریس اسٹوڈنٹ میں اپنی لائف میں نہیں دیکھی ۔۔۔ میرا ٹائم ویسٹ مت کریں اور جا کر نیل ڈاؤن ہو جائیں اور آئندہ آپ نے یوں چیٹ کرنے کی کوشش کی تو میں اسے بھی سخت سزا دوں گا ۔۔۔۔ ” ارتضی نے اسے گھورتے ہوئے کہا
"ایم سوری ۔۔۔ مجھے یہ پنش منظور نہیں ہے ” حیا نے ڈھٹائی سے جواب دیا
"میں آپ کا ٹیچر ہوں اور اس قسم کی بحث بلکل برداشت نہیں کروں گا ۔۔۔ باہر نکلیں یہاں سے یا تو کوریڈور میں جا کر نیل ڈاؤن ہو جائیں یا پھر دوبارہ میری کلاس آپ  اٹینڈ نہیں کریں گئیں ” ارتضی کا غصے سے برا حال ہوا تھا ۔۔۔چہرا غصے سے حیا کا بھی  تمتمایا تھا ۔۔۔ ایسی انسلٹ پوری کلاس کے سامنے اس نے سوچی بھی نہیں تھی ۔۔۔ وہ غصے سے کلاس سے باہر جا نیل ڈوان ہو گی آنے جانے والے اسٹوڈنٹ کی استزائیہ مسکراہٹ دبی دبی ہنسی کو  وہ صرف سر جھکائے سن رہی تھی ۔۔۔۔ غصہ اس قدر تھا کہ حشر بگارڈ کے رکھ دے اس شخص کا جس کی وجہ سے اس کا تماشہ بن رہا تھا ۔۔۔۔
کلاس ختم ہوتے ہی ارتضی کلاس سے باہر آ کر اس کے سامنے کھڑا ہو گیا ۔۔۔
"جائیں اندر اور آئندہ میرا ٹیسٹ ہمیشہ یاد کر کے آئیے گا "ارتضی نے تنببہ کی اور آگے بڑھ گیا
”  آپ نے اچھا نہیں کیا سر ۔۔۔۔ بہت پچھتائیں گئے آپ "حیا کی آنکھوں میں قہر برس رہا تھا ارتضی کے قدم وہیں رکے تھے پلٹ کر وہ پھر سے اسکے سامنے کھڑا ہو گیا
” آپ مجھے دھمکی دے رہیں حیا ۔۔۔ ؟ شرمندہ ہونے کے بجائے آپ ۔۔۔۔  دھمکی دے رہیں وہ بھی ایک ٹیچر کو ” وہ متعجب تھا سامنے وہ بے خوف سی اسکی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی
” دھمکی نہیں دے رہی آپ کو بتا رہی ہوں کہ آپ نے حیا سلیمان کو ٹھیک سے سمجھا نہیں ہے ۔۔۔۔ پچھلے ایک مہنے سے برداشت کر رہی ہوں آپ کو ۔۔۔ کوئی چھوٹی بچی نہیں ہوں میں ۔۔۔ جو آپ اس قسم کی پنشمنٹ دیتے رہیں اور میں چپ رہوں ۔۔۔  اصل میں  آپ کو کسی گورمنٹ اسکول کا ٹیچر ہونا چاہیے تھا ۔۔۔ اس ہائی اسٹینڈرڈ کالج میں پڑھانے کے طور طریقے کچھ اور ہیں ۔۔۔ ” اس قدر بد لحاضی پر وہ تلملاڈا گیا تھا
"تو اب آپ مجھے سیکھائیں گئی۔ کہ مجھے اس ہائی کلاس کالج میں کیسے پڑھانا چاہیے ۔۔۔ ‘
” یہ تو آپ کو کل پرنسپل بتائیں گئے ۔۔۔۔۔ ” یہ کہہ کر حیا کلاس روم میں چلی گئ ارتضی اسکی کی بدتمیزی اور بدلحاضی پر غصہ بھی تھا اور حیران بھی لیکن چپ چاپ وہاں سے چلا گیا اگلے روز واقع پہلے ہی پریڈ میں ارتضی کو پرنسپل کے آفس سے  بلوا آ چکا تھا ۔۔۔۔
حیا اپنے والد کے ساتھ وہاں پہلے سے  موجود تھی ۔۔۔ دونوں  باپ بیٹی ہی غصے سے بھپرے بیٹھے تھے ۔۔۔۔
*****…….*****
جانتی ہوں لکھائی میں بہت زیادہ غلطیاں ہیں اس کے لئے معذرت
غلطیوں کو اگنور کر دیں پلیز