اگلی صبح سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ہی عمرو عیار بیدار ہوا تو اس نے دیکھا کہ ایک اجنبی شخص، ان کی جھونپڑی کے باہر کھڑا ہے۔ اس کے چہرے پر پریشانی تھی۔ عمرو جلدی سے باہر آیا اور پوچھا:

"جناب! آپ کون ہیں اور یہاں کیوں کھڑے ہیں؟”

اجنبی نے دھیرے سے کہا:

"میرا نام ریحان ہے۔ میں ایک مسافر ہوں اور دور دراز کے گاؤں سے آیا ہوں۔ ہمارے گاؤں میں ایک بڑا مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے۔ ہمیں تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔”

عمرو کو ماں کی نصیحت یاد آئی کہ "ہر کسی کی مشکل میں مدد کرنا ہے”۔ اس نے مسافر کو اندر بٹھایا اور پانی لا کر دیا۔ مسافر نے بتایا کہ ان کے گاؤں کے نزدیک ایک عجیب جادوگر رہتا ہے جو ستاروں والے نیلے چوغے میں گھومتا ہے۔ پہلے تو وہ بہت نیک انسان تھا اور لوگوں کی مدد کیا کرتا تھا، مگر چند دنوں سے اس نے اچانک گاؤں کے لوگوں کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔ کبھی پانی روک دیتا، کبھی سبزیاں خشک کر دیتا، اور اب تو اس نے گاؤں کی بکریاں بھی غائب کر دی ہیں

مسافر نے افسوس سے سر ہلاتے ہوئے کہا:

"ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ اس نیک دل جادوگر کو کیا ہوگیا ہے۔ شاید اس پر کوئی جادوئی اثر ہو گیا ہے۔ گاؤں کے بزرگ کہتے ہیں کہ اس کے پاس ایک سبز رنگ کی چادر ہے، جسے اوڑھ کر وہ کسی بھی شکل میں بدل جاتا ہے۔ ہمیں ڈر ہے کہ وہ ہماری باقی چیزیں بھی غائب نہ کر دے!”
یہ سن کر عمرو نے اپنی جادوئی زنبیل کو دیکھا۔ اسے یاد آیا کہ پرستان کے جن شاخان نے کہا تھا کہ جب بھی وہ کسی نیک کام کا ارادہ کرے گا تو زنبیل اس کی مدد کرے گی۔
عمرو نے فوراً ماں کو بتایا کہ وہ اس مسافر کے ساتھ جائے گا اور گاؤں کے لوگوں کی مدد کرے گا۔ ماں نے اسے ڈھیروں دعائیں دیں اور نصیحت کی کہ ہمیشہ سچ اور نیکی کا ساتھ دینا

عمرو اور ریحان ابھی سفر پر روانہ ہی ہوئے تھے کہ شام ڈھلنے لگی۔ آسمان پر چاند نکلا تو اس پر سرخ ٹوپی پہنے ایک مسکراتا ہوا چہرہ نظر آیا، ساتھ ہی ایک ننھا سا ستارہ بھی جھانک رہا تھا۔ یہی شاخان تھا۔۔!
میں نے تم سے کہا تھا نا۔۔
میں تم سے ملنے آؤں گا دوبارہ۔۔۔!

عمرو کو یاد آیا کہ پرستان کے جن شاخان نے کہا تھا کہ "صرف نیک لوگوں کو آسمان کے عجائبات نظر آتے ہیں۔” واقعی یہ منظر بہت انوکھا تھا

چاند نے آہستہ سے کہا…!

"عمرو عیار! آگے تمہیں ایک مشکل گھاٹی ملے گی۔ ڈرنا نہیں، اپنی زنبیل پر بھروسا رکھنا۔ نیکی کرنے والوں کی رہنمائی آسمان بھی کرتا ہے۔”

عمرو مسکرایا اور بولا
"شکریہ شاخان بھائی! میں اللہ کے بعد اپنی زنبیل پر بھروسا رکھتا ہوں۔”

ریحان یہ سب دیکھ کر حیران رہ گیا کہ چاند عمرو سے باتیں کر رہا ہے! مگر اس نےدل میں سوچا کہ شاید یہی عمرو کی اچھائی کا انعام ہے

اگلے دن صبح سویرے، دونوں ایک گھنے جنگل کو پار کر کے ایک گھاٹی میں داخل ہوئے جہاں درختوں کے پتّے بڑے بڑے اور بیلیں بہت لمبی تھیں۔ یہاں دن میں بھی اندھیرا چھا رہا تھا۔۔۔جانوروں کی خوفناک آوازیں ڈرائے دے رہی تھیں۔۔۔
اچانک ایک لمبے قد والا جادوگر، ستاروں والے نیلے چوغے میں، ہاتھ میں لکڑی کی چھڑی تھامے سامنے آ گیا۔ اس کے چہرے پر سختی تھی اور آنکھوں میں عجیب سی چمک۔

عمرو نے آگے بڑھ کر سلام کیا اور پوچھا:
"بابا! ہم نے سنا ہے آپ نیک دل جادوگر تھے۔ کیا وجہ ہے کہ آپ اب لوگوں کو تنگ کر رہے ہیں۔۔!

جادوگر نے غصے سے چھڑی زمین پر ماری تو ایک گرجدار آواز آئی:

"یہاں سے دفع ہو جاؤ ورنہ میں تمہیں بھی غائب کر دوں گا!”

عمرو سمجھ گیا کہ یقیناً اس پر کسی قسم کا جادو کا اثر ہے۔ اس نے فوراً اپنی زنبیل سے مدد مانگی:

"اے جادوئی زنبیل! کوئی ایسی چیز عطا کر جو ہمیں اس جادوگر کا بھید جاننے میں مدد دے۔

زنبیل میں اچانک ہلچل ہوئی اور اس میں سے چھوٹے چھوٹے کانوں اور آنکھوں والا سُنہری پتھر نکل آیا۔ عمرو نے وہ پتھر اٹھایا تو پتھر نے دھیمی آواز میں کہا:
سبز چادر کو
"ڈھونڈو۔ وہ چادر اصل میں ایک بدروح کی ہے جو جادوگر کے ذہن کو قابو کر رہی ہے۔”

عمرو نے خاموشی سے جادوگر کی حرکات کا جائزہ لیا۔ اچانک اس کی نظر جادوگر کی کمر پر بندھی ہوئی سبز چادر پر پڑی۔ عمرو نے ریحان کو آنکھ کے اشارے سے تیار رہنے کو کہا۔ پھر عمرو نے بڑی چالاکی سے جادوگر کو اپنی چکنی چُپڑی باتوں میں لگایا اور ریحان نے پیچھے سے سبز چادر کھینچ لی۔ جیسے ہی چادر جادوگر سے جدا ہوئی، وہ دھیمے لہجے میں کراہتا ہوا زمین پر بیٹھ گیا، جیسے کسی نے اسے آزاد کر دیا ہو۔

سبز چادر ریحان کے ہاتھوں میں مچلنے لگی، جیسے کوئی چھپکلی کی دُم مچلتی ہے۔ اچانک اس چادر نے ایک ڈراؤنی شکل اختیار کر لی، مگر عمرو نے جلدی سے اپنی زنبیل میں سے وہی سنہری پتھر نکالا اور چادر کی طرف اچھال دیا۔ پتھر سے ایک روشنی نکلی اور چادر کو جلا کر راکھ کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی ایک سیاہ دھواں اٹھا اور غائب ہو گیا۔ یوں جادوگر بدروح کے اثر سے آزاد ہو گیا۔

جادوگر نے آنکھیں کھولیں تو شرمندہ لہجے میں بولا:

"میں معافی چاہتا ہوں۔ مجھے کچھ یاد نہیں کہ میں نے لوگوں کو کیوں تنگ کیا۔ شاید اس بدروح نے میرے دل پر قبضہ کر لیا تھا۔”
عمرو نے اسے تسلی دی اور بتایا کہ سب ٹھیک ہو گیا ہے۔ جادوگر نے خوش ہو کر ریحان اور عمرو کا شکریہ ادا کیا۔ ریحان نے بھی سکون کا سانس لیا کہ اب اس کے گاؤں کے لوگ محفوظ ہیں

عمرو نے زنبیل کو دیکھا تو اس میں ایک نئی روشنی سی جگمگاتی نظر آئی۔ جب اس نے زنبیل کھولی تو اندر سے ایک چھوٹی سی بوتل نکلی جس پر چاند اور ستارے بنے ہوئے تھے۔ بوتل کے ڈھکن پر سرخ ٹوپی جیسا نشان تھا، بالکل ویسا ہی جیسے آسمان والے چاند کی ٹوپی تھی!

"یہ تمہارے نیک کام کا انعام ہے،”
جادوگر نے مسکراتے ہوئے کہا،
"اس بوتل میں ایک جادوئی خوشبو ہے۔ جب بھی کوئی تمہاری بات نہ سمجھے یا غصے میں ہو تو یہ خوشبو فضا میں پھیلا دینا۔ سب کے دل اور دماغ صاف ہو جائیں گے۔”غصہ جاتا رہے گا

عمرو نے بوتل کو سنبھال کر زنبیل میں رکھا اور خدا کا شکر ادا کیا۔ ریحان بہت خوش تھا کہ اب وہ گاؤں والوں کو اچھی خبر سنا سکے گا۔ جادوگر نے وعدہ کیا کہ وہ خود بھی گاؤں جا کر سب کا نقصان پورا کرے گا اور انہیں نئے سرے سے خوشیوں کا سامان فراہم کرے گا۔

عمرو، ریحان اور جادوگر تینوں نے اڑنے والے قالین پر سفر کیا اور جلد ہی گاؤں پہنچ گئے۔ وہاں کے لوگ عمرو کو دعائیں دیتے رہے۔ جادوگر نے سب کی کھوئی ہوئی بکریاں واپس لا دیں اور خشک کھیتوں کو دوبارہ سرسبز کر دیا۔ یوں گاؤں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

عمرو کوشاخان جن سے بہت سی باتیں کرنی تھیں پرستان کے بارے میں جاننا تھا۔۔
رات کو عمرو نے آسمان کی طرف اداسی دیکھا تو اسے مسکراتا چاند اور ننھا ستارہ دکھائی دیا۔ ۔۔۔یہ شاخان تھا۔۔۔
چاند نے مسکراتے ہوئے کہا:
میں تم سے ملنے آؤں گا دوبارہ۔۔
"عمرو عیار! تمہاری زنبیل میں ابھی بہت سے راز باقی ہیں۔ نیکی کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا۔ جب بھی تم مدد کرو گے، زنبیل میں نئی جادوئی چیزیں شامل ہوتی رہیں گی۔”
عمرو نے دل ہی دل میں عہد کیا کہ وہ ہمیشہ دوسروں کی بھلائی کے لیے کام کرتا رہے گا۔ اس کی ماں نے اسے گلے لگایا اور دعا دی۔ اس طرح ایک اور نیک کام کے ساتھ عمرو عیار کا سفر جاری رہا، اور اس کی جادوئی زنبیل میں نیکیوں کے خزانے بڑھتے چلے گئے۔

ازقلم ربیعہ سلیم مرزا۔۔۔