لاہور کی ایک گلی میں ، جہاں چھوٹے مگر صاف ستھرے گھر بنے ہوئے تھے ، کچھ چھوٹی چھوٹی دکانیں بھی تھیں جہاں بچوں کی دلچسپی کے لئیے بہت ساری چیزیں بھی موجود تھیں۔۔۔
رمضان کے آخری دن چل رہے تھے اور ہر کوئی نئے کپڑے ، جوتے ،چوڑیاں اور سویاں خریدنے میں مصروف تھا ، وہیں ایک بچی رقیہ اپنے چھوٹے بھائی احسن کے ساتھ عید کی تیاری میں لگی ہوئی تھی۔۔۔
رقیہ ایک عام بچی نہیں تھی ۔ وہ ایک سمجھدار اور رحم دل بچی تھی ، جسے دوسروں کی مدد کرنا بہت اچھا لگتا تھا ۔۔۔
اس دفعہ کی عید اس کے لئیے خاص تھی، لیکن کیوں ؟ آئیے جانتے ہیں۔

” امی مجھے اس عید پہ بہت سی چیزیں خریدنی ہیں ” رقیہ نے خوشی سے کہا، جب وہ اپنی امی کے ساتھ بازار جارہی تھی۔

” بیٹا تمہیں اپنی پسند کی چیزیں ضرور خریدنی چاہئیے مگر دوسروں کا بھی خیال رکھنا چاہئیے ” ۔ امی نے نرمی سے سمجھایا۔رقیہ نے سر ہلایا اور سوچنے لگی کہ وہ اس عید پہ ضرور کچھ خاص کرے گی۔

بازار میں چمچماتے کپڑے ، مہندی اور چوڑیوں کے اسٹالز ، کئ طرح کے فوڈ اسٹالز ، ان سب کو دیکھ کر اس کی خوشی دوگنی ہوگئ ۔

اس نے اپنے لئیے ایک خوبصورت گلابی فراک ، سنہری چوڑیاں اور فراک کی میچنگ کے سینڈل خریدے۔ اس کی امی نے رقیہ کے بھائی احسن کے لئیے بھی ایک پیارا سا نیلے رنگ کا کرتا ، شلوار خریدا۔

جب وہ خریداری کر کے گھر پہنچی تو دادی نے مسکرا کر کہا ،
” واہ ہماری رقیہ تو چاند کی طرح چمک رہی ہے!”

یوں رمضان کا آخری روزہ آگیا ، سب لوگ عید کا چاند دیکھنے چھت پر آگئے اور کوشش کرنے لگے کہ سب سے پہلے وہ عید کا چاند دیکھیں ، آخر رقیہ کی امی کو باریک سا ہلال عید نظر آہی گیا ، پھر امی کے اشارے پر سب نے خوش ہو کر چاند کی طرف دیکھا اور دعا کے لئیے اپنے ہاتھ بلند کئیے۔

چاند رات کو ہر طرف خوشیوں کا سماں تھا ، بچیاں مہندی لگوارہی تھیں ، امی سویاں بنانے کی تیاری میں مصروف تھیں اور بچے ہنستے ، مسکراتے کھیل رہے تھے۔

ایسے میں رقیہ اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر کی رونق دیکھ رہی تھی کہ اس کی نظر گلی کے کونے میں کھڑیی ایک غریب بچی پر پڑی ، وہ میلی سی چادر میں لپٹی ہوئی تھی اور حسرت بھری نظروں سے گلی کی چہل پہل دیکھ رہی ٹھی۔

رقیہ کا دل دھک سے رہ گیا۔

امی یہ لڑکی یہاں کیوں کھڑی ہے ؟ شائد اس کے پاس عید کے کپڑے نہیں ہیں ؟

امی نے افسوس سے کہا، بیٹا ! سب کو عید پر خوشیاں نہیں ملتیں ۔ کچھ لوگ غریب ہوتے ہیں ، ان کے پاس نئے کپڑے اور کھانے کے لئیے پیسے نہیں ہوتے ہیں۔

رقیہ کو یہ سن کر بہت دکھ ہوا ، اس نے سوچا ، ” میں اپنی خوشیوں کو دوسرے کے ساتھ بانٹوں گی”

رقیہ نے اندر آ کر اپنی الماری کھولی اور اپنے عید کے جوڑوں میں سے ایک نئ فراک ، چوڑیاں اور سینڈل نکالے اور باہر آگئ۔

” رقیہ کہاں جارہی ہو ؟ "

احسن نے حیرانی سے پوچھا ! "
بس ایک کام ہے ” ۔
رقیہ نے مسکرا کر کہا اور گلی کے کونے میں پہنچ گئ ،جہاں وہ بچی اب بھی بیٹھی ہوئی تھی۔

” یہ تمہارے لئیے ہیں ،” اس نے اپنے نئے کپڑے ، سینڈل اور چوڑیاں اس لڑکی کو دئیے ۔ اس نے آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ رقیہ کو دیکھا ، اس کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا۔

” میرے لئیے واقعی ؟ "

” ہاں تم بھی اس عید پہ خوبصورت لگو گی ” ۔ رقیہ نے محبت سے کہا۔

لڑکی کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے ، اس نے رقیہ کو گلے لگا لیا…
اگلے دن جب عید کا سورج نکلا ، سب لوگ عیدگاہ سے نماز کی ادائیگی کے بعد گھر واپس آئے ۔ ہرطرف سے مزےدار، کھانے ، سویاں اور مٹھائیوں کی خوشبو آرہی تھیں۔
امی نے فوراً میز سجائی اور طرح طرح کے کھانے میز پر چن دئیے۔ سب نے سویاں اور دوسری مزے مزے کی چیزیں کھائیں۔

اب رقیہ اور احسن ، ا پنے بابا کی طرف دیکھنے لگے ۔ بابا ، بابا ہماری عیدی کہاں ہے ؟

بابا مسکرائے اور اپنے والٹ سے پانچ ،پانچ سو کے نوٹ دونوں کو دئیے۔
رقیہ اور احسن بہت خوش ہوئے اور دروازے کے پاس کھڑے ہوکر اپنے دوستوں کا انتظار کرنے لگے کہ اچانک وہی لڑکی اپنی امی کے ساتھ نظر آئ۔

اب وہ میلی چادر کے بجائے رقیہ کی دی ہوئی فراک اور چوڑیاں پہنی ہوئی تھی .

” عید مبارک رقیہ ” بچی نے خوشی سے کہا ۔
"عید مبارک” رقیہ نے بھی مسکرا کر جواب دیا۔

امی بھی لڑکی کو نئے لباس میں دیکھ کر خوش ہوئیں اور رقیہ کو پیار سے گلے لگا لیا اور کہا ، ” بیٹا! تم نے آج عید کی اصلی خوشی حاصل کی ہے ۔”

یوں رقیہ کی یہ عید اس کے لئیے یادگار بن گئی، اس نے یہ ثابت کردیا کہ عید صرف نئے کپڑوں اور مٹھائیوں کا نام نہیں بلکہ دوسروں کے چہرے پر خوشی بکھیرنے کا تہوار ہے۔۔۔