
ایک خوبصورت سےگاؤں میں عمرو اوراس کی بوڑھی ماں ،چھوٹی سی جھونپڑی میں رہتے تھے ۔ عمرو ایک عقلمد ،نیک اور بے حد زہین بچہ تھا۔
اسے علم حاصل کرنے اور نئی نئی باتیں سیکھنے کا بہت شوق تھا۔
ان دنوں، گھر میں موجود بوڑھے اور بزرگ لوگ، کہانیاں اور اچھی اچھی باتیں سُنا کر گاؤں کے بچوں کی تربیت کرتے تھے۔ عمرو بھی بزرگوں کی باتوں کو غور سے سنتا اور عمل کرنے کی کوشش کرتا۔
عمرو،ہمیشہ مسافروں اور غریب لوگوں کی مدد کرنے کی لیے تیار رہتا تھا۔ اکثر، اپنی زہانت اور ہوشیاری سے کام لے کر راہگیروں کو چوروں اور ڈاکوؤں کے چُنگل سے چُھڑا لاتا کہ دیکھنے والے خیران رہ جاتے۔اسی بہادری کی وجہ سے لوگوں نے پیار سےاس کا نام عمرو عیار رکھ دیا۔
عمرو عیار، روزصبح سویرے اپنی ماں کی دعائیں لیتا اورقریب کے جنگل میں لکڑیاں کاٹنے چلا جاتا۔ اس کی بوڑھی ماں ایک پوٹلی میں کچھ کھانا باندھ دیتی اور عمرو کو نصیحت کرتی!
بیٹا، بھوکے مسافر کو کھانا ضرور کھلانا ۔مشکل وقت میں ہر کسی
کی مدد کرنا۔
شام ہوتے ہی عمرو، کٹی ہوئی لکڑیاں، شہر لے جا کر بیچتا ۔ اپنی اور اپنی ماں کی ضرورت کی چیزیں خرید کر گھر لوٹ آتا۔ واپسی پر بھی اس کی بوڑھی ماں دعاؤں سے اس کا استقبال کرتی اور دونوں مل کر کھانا کھاتے اور ایک دوسرے کو دن بھر کا ماجرا سناتے۔زندگی بہت اچھی گزر رہی تھی۔
ایک دن عمرو عیار لکڑیاں کاٹ رہا تھا کہ اسے ایک آواز سنائی دی۔!
مجھےبھوک لگی ہے، مجھے کچھ کھانے کو دو۔!
عمرو نے مڑ کے دیکھا تو ایک خرگوش عمرو سے مخاطب تھا۔عمرو اسے باتیں کرتا دیکھ کر بہت حیران ہوا۔کہنے لگا!
کون ہو تم؟
"میں اپنے بِل کا راستہ بھول گیا ہوں اور اب مجھے بھوک بھی لگی ہے،”۔مجھے کچھ کھانے کو دو۔خرگوش رونے لگا۔
اچھا، تم چپ ہو جاؤ ۔ روؤ مت ۔عمروعیار بولا اور اپنی پوٹلی سے روٹی کا ٹکرا نکال کر خرگوش کے آگے ڈال دیا۔
۔روٹی کھاتے ہی خرگوش ایک بوڑھے جن میں بدل گیا۔عمرو نے ڈرتے ڈرتے پوچھا!
آپ کون ہیں بابا؟
میں پرستان کا جن شاخان ہوں۔۔۔
پرستان؟ وہ کہاں ہے؟ میں نے تو کبھی اس جگہ کے بارے میں نہیں سنا۔عمرو نے خیران ہو کر پھر پوچھا۔۔
وہاں، اوپر ۔آسمانوں میں ہے۔
شاخان جن نے انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔
"صرف نیک لوگوں کو دکھائی دیتا ہے”۔ ۔میں ایسے لوگوں کو ڈھونڈھتا ہوں اور ان کی مدد کرتا ہوں تاکہ وہ ،دوسرے لوگوں کی مزید مدد کر سکیں۔اس طرح نیک دل لوگوں کا حوصلہ بڑھتا ہے اور نیکی بھی قائم رہتی ہے۔۔
تم بھی نیک اور بھلےانسان ہو ۔تم نے ایک بھوکے جانور کو کھانا کھلایا ہے۔اسی رحم دلی کی وجہ سے میں نے تمہیں ُچُنا ہے۔بوڑھے جن نے عمرو کو ایک کپڑے کا تھیلا دیااور کہنے لگا!
یہ جادو کی زنبیل ہے ۔اس میں بہت سی جادوئی چیزیں ہیں جو تمہاری ضرورت کے حساب سےتمہاری مدد کریں گی ۔
جب بھی تم کوئی نیکی کرو گے تو اس زنبیل میں موجود چیزوں میں ۔۔۔ایک، ایک کر کےاضافہ ہوتا جائے گا۔بس تم نیک کام کرنا مت چھوڑنا۔
یہ کہتے ہی بزرگ جن غائب ہو گئے ۔اب شام ہو رہی تھی ۔عمرو نے باقی کھانا سمیٹا اور زنبیل کو حکم دیا!
ائے جادوئی زنبیل!
مجھے گھر پہنچا دیا جائے ۔
یہ سننا تھا کہ پلک جھپکتے ہی زنبیل سے ایک خوبصورت سنہرے پروں والا قالین نکل کر عمرو عیارکے سامنے بچھ گیا۔
عمرو قالین پر سوار ہوا تو قالین اُڑنے لگا۔ عمرو عیار نے اداسی سے آسمان کی طرف دیکھا۔۔۔وہ پرستان کے جن سے اور
بھی باتیں کرنا چاہتا تھا۔اچانک، آسمان میں موجود سب سے روشن ستارہ مسکرایا اور بولا!
میں تم سے ملنے دوبارہ آؤں گا۔۔!عمرو بھی مسکرا دیا۔اُڑنے والا قالین۔۔اس کی پہلی نیکی کا انعام تھا۔۔۔
تھوڑی دیر بعد عمرو عیار اپنی جھونپڑی کے سامنے پہنچ چکا تھا۔اس نے قالین کو واپس زنبیل میں جانے کاحکم دیا اور جاکر اپنی ماں کو سارا ماجرا سنایا۔
اس کی ماں سب کچھ سن کر بہت خوش ہوئی اور عمرو کوبہت سی مزید دعائیں دیں۔اور کہنے لگیں!
عمرو۔بیٹا، نیکی کرنے والے کی خدا، خود مدد کرتاہے ۔اگر تم کسی کے کام آؤ گے تو کل، کوئی تمہاری بھی مدد کرے گا ۔ اس لیےکر بھلا سو ہو بھلا۔